وادی کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ قصائیوں نے گوشت کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کیا ۔ قیمتوں میں اضافے کا یک طرفہ اقدامات اس وقت اٹھایا گیا جب ماہ رمضان کے مقدس ایام چل رہے ہیں ۔ اس مہینے کے دوران گوشت کی کھپت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ روزوں کے دوران صحت برقرار رکھنے کے لئے گوشت کے استعمال کو پسند کرتے ہیں ۔ ایسے میں گوشت کی قیمتوں میں اضافہ افسوس کا باعث ہے ۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ اس حوالے سے خاموش ہے اور اس طرح کی من مانی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے ۔انتظامیہ اس طرح کے اقدام کو کیونکر برداشت کررہی ہے اس پر لوگ حیران ہیں ۔ کئی حلقوں اور عوامی انجمنوں کی طرف سے اس پر احتجاج کیا گیا ۔ لیکن کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔قصائی بڑی ڈھٹائی سے گوشت اپنی من پسند قیمتوں پر فروخت کررہے ہیں اور ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ بازار میں قیمتیں کنترول میں ہیں ۔ بلکہ مرکزی سرکار کی طرف سے کہا گیا کہ افراط زر میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو سہولیات میسر آرہی ہیں ۔ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ سامنے لاتے ہوئے کہا گیا کہ اگلے سال افراط زر میں مزید کمی متوقع ہے جو کہ عام لوگوں کو خریداری میں مدد دے گی ۔ اس دوران کشمیر میں گوشت میں فی کلو 100 روپے قیمت بڑھانے سے متوسط طبقے کے لئے گوشت خریدنا ناممکن بن گیا ہے ۔ بلکہ عام شہری بھی اس وجہ سے سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔
قصائی ہر ایسے موقعے پر جب عوام کو گوشت کی ضرورت ہوتی ہے من مانی کرکے ریٹ میں اضافہ کرتے ہیں ۔ پچھلے سال کے شروع میں ہی ان کی روگردانی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے یک طرفہ طور قیمتوں میں اضافہ کیا ۔ اس مرحلے پر انتظامیہ نے اپنے طور سخت کوشش کی تھی کہ قصائیوں کو بے بس کرکے قیمتوں میں اضافے سے روکا جائے ۔ لیکن کامیابی نہ ملی اور قصائی ایک بار پھر اپنی ہٹ دھرمی میں کامیاب ہوگئے ۔ اس کے بعد انتظامیہ نے گوشت کے ریٹ 600 روپے مقرر کئے ۔ یہ ریٹ ایک دو ہفتے چلی ۔ اگلے ہی مہینے قصائیوں نے پچاس روپے کے اضافے سے گوشت فروخت کرنا شروع کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے ذمے دار قصائی نہیں بلکہ کوٹھدار ہیں ۔ کوٹھداروں کا کہنا ہے کہ انہیں جن علاقوں سے مال لانا پڑتا ہے وہاں آئے روز قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ٹرک کرایہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں مبینہ طور کئی لوگ کی مٹھیاں گرم اور جیب بھرنے پڑتے ہیں ۔ جب ایسی بات ہوتو ان سے بحث کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ بلکہ آدمی شرمندہ ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اس دوران دیکھا گیا کہ بازار میں قیمتوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ۔ سبزیاں مناسب قیمت میں ملتی ہیں اور ہر گلی محلے میں سبزی فروش ٹھیلے لگاکر بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح دوسری اشیا کی قیمتوں میں پچھلے سال کی مناسبت سے زیادہ اچھال دیکھنے کو نہیں مل رہاہے ۔ صرف گوشت کی قیمت میں فی کلو سو ڈیڑھ سو روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری نرخ نامے آویزان رکھنے کے باوجود وہاں درج ریٹ پر عمل نہیں کیا جاتا ہے ۔ ساتھ میں وزن کے حوالے سے بھی سرکاری اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں یہ بات سب سے زیادہ کھٹکتی ہے کہ ریٹ میں اضافہ ہمیشہ سرینگر سے ہوتا ہے اور وہاں بھی مین سٹی کے قصائی اس کے مرتکب نظر آتے ہیں ۔ گائوں دیہات میں تحصیل سطح کے آفیسر قیمت کو اعتدال میں رکھنے کی کوشش کریں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ سرینگر میں یہی ریٹ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔ صحیح بات بھی یہی ہے کہ سرینگر کی اہم جگہوں پر گائوں دیہات سے زیادہ قیمت پر گوشت فروخت ہوتا ہے ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ وہاں کا مال بڑا صاف و شفاف اور بہتر صورت کا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود ریٹ میں از خود اضافہ صحیح اقدام نہیں ۔ بلکہ یہ سراسر قانون شکنی ہے ۔ اس طرح سے قصائی انتظامیہ کا مزاق اڑاتے ہیں اور دوسروں کو قانون شکنی پر اکساتے ہیں ۔ قصائیوں کی اس من مانی کا اثر پورے بازار پر پڑتا ہے ۔ اب چند دنوں کے بعد نانوائی اور شیر فروش بھی یہی کچھ کریں گے ۔ عید کے موقعے پر تو ویسے بھی ہر کوئی گاہکوں کا لوٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔ باقی دنیا میں متبرک دنوں کے موقعے پر گاہکوں کو چھوٹ ملتی ہے اور دکاندار بغیر منافع کے چیزیں فروخت کرتے ہیں ۔ کرسمس ہو یا دیوالی ایسے موقعوں پر گاہکوں کو مناسب ریٹ پر اشیا بھیجی جاتی ہیں ۔ اس کے بجائے عید اور دوسرے ایسے ایام کے دوران بازار میں لٹیرے نمودار ہوکر ہر کسی کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا ضمیر مرگیا ہے ساتھ قانون کی پاسداری کرنے کو یہ لوگ تیار نہیں ۔ اس روگردانی پر انتظامیہ کوئی سزا دے یا نہ دے قدرت کی طرف سے ضرور پھٹکار ملتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم بڑی تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ تاہم انتظامیہ کو اپنا مناسب رول ضرور ادا کرنا چاہئے ۔
