لوک سبھا انتخابات کے چھٹے مرحلے پر جموں کشمیر میں اننت ناگ راجوری نشست پر ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ اس نشست پر تشہیری مہم جمعرات کی شام کو اختتام پذیر ہوئی ۔ اس روز کئی امیدواروں نے ووٹروں کو رجھانے کے لئے کوششوں میں تیزی لائی ۔ یہ جموں کشمیر میں آخری نشست ہے جہاں ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ اس طرح سے جموں کشمیر میں ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہوا ۔ پہلے جموں کی دو نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے ۔ بعد میں سرینگر اور پیر کو بارھمولہ نشست پر بڑی تعداد میں لوگوں نے پولنگ میں حصہ لیا ۔ اب آخری نشست اننت ناگ راجوری کی ہے جہاں آج ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔ یہ نشست یہاں کے سیاسی حلقوں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس سیٹ پر کل 20 امیدوار قسمت آزمائی کے لئے میدان میں ہیں ۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی خاصی اہمیت کی حامل امیدوار ہیں ۔ این سی نے میاں الطاف کو میدان میں اتارا ہے جبکہ اپنی پارٹی کی طرف سے ظفر منہاس امیدوار ہیں ۔ تینوں کا مضبوط ووٹ بینک ہے ۔ انتخابی حلقے کی نئی حد بندی سے پہلے یہ سیٹ پی ڈی پی کے لئے محفوظ سمجھی جاتی تھی ۔ لیکن پلوامہ اور شوپیان ضلع کے کئی علاقوں کو سرینگر نشست سے جوڑنے سے پی ڈی پی کو بڑا دھچکہ لگا ہے ۔ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں جنوبی کشمیر کی یہ نشست این سی نے جیت لی تھی ۔ اس وقت راجوری کا علاقہ اس نشست کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ این سی نے راجوری کے ووٹروں کو رجھانے کے لئے پہاڑی برادری کے اندر مقبول امیدوار کو یہاں لاکر میدان میں اتارا ۔ اسی طرح اپنی پارٹی کے امیدوار کا بعض حلقوں میں کافی اثر و رسوخ بتایا جاتا ہے ۔ محبوبہ مفتی کے لئے اپنا آبائی علاقہ مضبوط ووٹ بینک بتایا جاتا ہے ۔ مجموعی طور اس نشست پر کانٹے کا مقابلہ ہونے کا اندازہ ہے ۔ میدان مارنے میں جو کوئی بھی کامیاب رہے گا عوام کی نمائندگی کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پارٹی کارکنوں نے سارے امیدواروں کے لئے بھر پور انتخابی مہم چلائی ۔ بڑے انتخابی جلسے دیکھنے کو ملے اور کئی روڈ شو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثال تھے ۔ اس دوران نامعلوم بندوق برداروں نے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک عوامی نمائندے کو گولی مار کر ہلاک کیا ۔ اس وجہ سے ووٹروں میں خوف و ہراس پھیلنے کا اندیشہ تھا ۔ تاہم بڑی تعداد میں لوگوں کی جنازے میں شرکت سے اس طرح کا خوف ختم ہوگیا اور لوگوں کے بڑے پیمانے پر ووٹ ڈالنے کا اندزاہ ہے ۔
چیف الیکٹورل آفیسر نے جنوبی کشمیر میں ہورہی پولنگ کے حوالے سے بتایا کہ پر امن پولنگ کے لئے تمام انتظامات کئے گئے ہیں ۔ پولنگ عملہ جمعہ کی شام کو ہی تمام ضروری ساز و سامان کے ساتھ پولنگ بوتھوں پر پہنچادیا گیا تھا ۔ سیکورٹی کے کڑے انتظامات کئے گئے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامی مشنری کو متحرک کیا گیا ہے اور ہدایت دی گئی ہے کہ پولنگ مراکز پر ووٹروں کو تمام سہولیات بہم پہنچائی جائیں ۔ عمر رسیدہ اورجسمانی طور ناخیز ووٹروں کی پہلے ہی شناخت کی گئی ہے اور ان کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے ضروری انتظامات کئے گئے ہیں ۔اننت ناگ راجوری نشست پر ووٹنگ سے پہلے کشمیر میں سرینگر اور بارھمولہ حلقوں کے لئے لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔ سرینگر حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح 38 فیصد رہی جبکہ بارھمولہ حلقے میں یہ شرح قریب قریب دوگنی ہوگئی ۔ دونوں جگہوں پر ہوئی ووٹنگ پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ اس تناظر میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جنوبی کشمیر میں بھی لوگ ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیں گے ۔ اس سے پہلے پچھلے تیس پنتیس سالوں کے دوران جو بھی انتخابات ہوئے لوگوں میں سخت خوف اور اضطراب پایا جاتا تھا ۔ علاحدگی پسندوں کی طرف سے بائیکاٹ کی اپیل کے پیش نظر بہت کم تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلتے تھے ۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے کی جرات کرتے تھے ان میں بیشتر کو بعد میں سزائوں اور دھمکیوں کا سامنا رہتا تھا ۔ بلکہ کئی ایسے لوگ گولیوں کا نشانہ بنائے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بہت کم تعداد میں ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ تاہم آج حالات میں مبینہ طور کافی بدلائو پایا جاتا ہے ۔ لوگ بلا دھڑک ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکل آتے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات میں پورے ملک میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہی رہتی ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے برعکس پارلیمانی انتخابات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے جو بھی امیدوار میدان میں ہوتے ہیں بہت کم لوگ ان سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں ۔ ان سے کوئی جان پہچان یا علیک سلیک نہیں ہوتا ہے ۔ اس کا اثر ووٹنگ شرح پر پڑتا ہے ۔ ووٹنگ شرح کم ہو یا زیادہ کسی ایک امیدوار کو الیکشن جیتنا ہے ۔ کس کے سر پر کامیابی کا سہرا سجے گا یہ اگلے مہینے معلوم ہوگا ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ سیاسی دنگل بڑی دلچسپ اور پر امن رہی ۔ کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع سامنے نہیں آئی ۔ امید ہے کہ انتخابات غیر جانبدارانہ اور پورے صاف وشفاف عمل کے تحت اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گے ۔