نریندر مودی نے تیسری بار ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لیا ۔ آپ نے مسلسل تیسری بار حلف لے لیا ۔ مودی 2014 سے اس عہدے پر براجمان ہیں ۔ اس سے پہلے پنڈت نہرو مسلسل تین بار ملک کے وزیراعظم بنائے گئے تھے ۔ طویل وقفے کے بعد مودی کو تیسری بار ملک کا وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ انہوں نے اتوار شام کو اپنے وزیروں کے ہم راہ عہدے کا حلف اٹھایا ۔ اس موقعے پر این ڈی اے میں شامل دوسری پارٹیوں کے سربراہ بھی موجود تھے ۔ حلف برداری کی تقریب سے پہلے ان تمام پارلیمنٹ ممبران سے بات چیت کی جنہیں وزارتی کونسل میں شامل کیا گیا ہے ۔ ایسے وزرا میں وہ تمام نمایاں نام شامل ہیں جو پچھلی وزارتی کونسل کا حصہ تھے ۔ پہلے یہ بات عام تھی کہ مودی کے اتحادی حکومت کا ساتھ دینے کے لئے کئی اہم وزارتوں کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ بعد میں ایسی افواہیں غلظ ثابت ہوئیں اور معلوم ہوا کہ بیشتر ایسے افراد وزارتی کونسل میں شامل ہیں جو پچھلے حکومت میں مودی کے بہت قریب رہے ہیں ۔ امیت شاہ کے علاوہ راجناتھ سنگھ ، نیتن گڈکری ، نرملا سیتا رمن ، ایس جے رمن اور دھرمیندر پردھان نئی کابینہ کا حصہ ہیں ۔ تاہم سمرتی ایرانی اور انوراگ ٹھوکر کو وزارتی کونسل میں شامل نہیں کیا گیا ۔ یاد رہے کہ ایرانی نے راجیو گاندھی کے خلاف الیکشن ہار دیا اوروہ نئی لوک سبھا کی ممبر نہیں رہی ہیں ۔ صدر دروپدی مرمو نے مودی اور اس کے دوسرے 72 وزرا کو رازداری کا حلف دلایا ۔ حلف برداری کی تقریب میں تین ہزار کے قریب مہمان شامل تھے ۔ بیرونی ممالک سے آنے والے مہمانوں میں مالدیپ کے صدر کے علاوہ سری لنکا کے صدر شامل تھے ۔ اسی طرح سیشلز کے نائب صدر بھی بطور مہمان تقریب میں موجود تھے ۔ ماریشس کے وزیراعظم نے بھی تقریب میں شرکت کی ۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو خاص طور سے بلایا گیا تھا ۔ نیپال کے وزیراعظم تقریب کا حصہ تھے ۔ بھوٹان کے وزیراعظم بھی اس تقریب میں موجود تھے ۔ تقریب میں جن مہمانوں نے تقریر کی ان میں این ڈی اے کے اہم ساجھے دار چندرا بابا نائیڈو کی تقریر بہت ہی اثر انداز کہی جاتی ہے ۔ نائیڈو ملک کے سینئر سیاسی رہنمائوں میں شامل ہیں اور اس سے پہلے کئی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ۔ انہوں نے مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے کام کرنے کے طریقے سے بہت ہی متاثر ہیں ۔ نائیڈو نے مودی حکومت کی کارجہ پالیسی کی خاص تقریف کی اور کہا کہا کہ آپ ندوستان کو دنیا کا نمبر ایک ملک بنانے میں کامیاب ہونگے ۔
نئی حکومت کی تشکیل اور حلف برداری کی تقریب کے ساتھ ہی نئی لوک سبھا کی تشکیل کا کام شروع کیا گیا ۔ ملک کی 18 ویں لوک سبھا اپنی نوعیت کی منفرد لوک سبھا ہے جس کا سارا دارومدار اتحادی جماعتوں کے ایک دوسرے سے تعاون پر انحصار رکھتا ہے ۔ ملی جلی سرکار چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے خیال تھا کہ بی جے پی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی ۔ ایسے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور انتخابی نتائج سے متعلق کی گئی پیش گوئیاں مکمل طور ناکام ہوئیں ۔ کہا جاتا تھا کہ حکمران اتحاد 400 کے آس پاس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگے اور بی جے پی اکیلے 300 سے زائد نشستیں حاصل کرے گی ۔ لیکن یہ سب ہوئی باتیں ثابت ہوئیں اور بڑی مشکل سے اپنے اتحادیوں کو راضی کرکے بی جے پی ایک بار پھر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ۔ اتحادیوں نے اگرچہ غیر مشروط حمایت کا وعدہ کیا ہے ۔ تاہم ایسے سیاسی وعدے زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے ہیں اور معمولی تنازعے حکومت کو گرانے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے وزیراعظم کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا ۔ مودی اور اس کے ساتھی ان چیزوں کے عادی نہیں ہیں کہ دوسروں کے ڈر سے اپنی پالیسی میں کسی طرح کی نرم برت لیں ۔ بلکہ ان کے اندر دھونس دبائو سے حکومت چلانے کا ہنر کمال درجے کا پایا جاتا ہے ۔ پچھلے دس سالوں کے دوران انہوںنے کسی بھی حکومت مخالف عنصر کو تنقید کا موقع نہیں دیا ۔ لیکن اس طرح کی پالیسی الیکشن میں ان کے کام نہ آسکی اور ووٹروں نے دھوکہ دے کر پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن فراہم کی ۔ مودی سے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک گم نام مخالف امیدوار کی ضمانت ضبط کرانے اور انہیں دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہرانے میں کامیاب ہونگے ۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مودی کے خلاف کوئی ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ بوتھ پر آجائے گا ۔ اس طرح کے اندازوں کے برخلاف ان کے خلاف بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے ۔ ان تمام باتوں سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ نئی سرکار منفی طور طریقوں کے بجائے مثبت انداز کو لے کر کام کرے گی ۔ جمہوری طرز سیاست میں ضروری ہے کہ لوگوں کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ دی جائے ۔ حکومتی پالیسی اپنی جگہ تاہم لوگوں کے روزمرہ مسائل پر توجہ دینا اور ووٹروں کا اعتماد بحال رکھنا بھی ضروری ہے ۔