قربانی کا بکرا بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ جس معنی میں استعمال ہوتا ہے آج یہ مکمل طور انسانوں پر فٹ آتا ہے ۔ عید کے ایام نزدیک آنے کے ساتھ یہاں قربانی کے لئے تگ و دو بڑھ جاتی ہے ۔ قربانی کے لئے جانور عید کے مخصوص دنوں میں قربان تو ہوتے ہی ہیں لیکن اس سے پہلے یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کا قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور فروخت کرنے کے لئے بہ ظاہر منڈیاں لگائی جاتی ہیں ۔ لیکن اصل میں وہاں لوگ قربان ہوتے ہیں ۔ ہر تاجر کی خواہش ہوتی ہے کہ ان ایام کے دوران زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے ۔ اس غرض سے لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر ان کا خون بھی نچوڑ لیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے لوگوں کو واقعی قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ۔ بیکری والے الگ سے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ قصائی اپنے طور ان کا خون چوس لیتے ہیں ۔ ملبوسات کے تاجر اپنے طور ان کا خون نچوڑتے ہیں ۔ یہاں قدم قدم پر عام شہریوں کا خون کیا جاتا ہے ۔ اتنے جانور عید پر ذبح نہیں ہوتے جتنا کہ عام لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے ۔ اس دوران دینی طبقے انہیں افیون پلاکر مستی کی نیند سلارہے ہیں ۔ ان کی لوٹ الگ سے انہیں کنگال بنارہی ہے ۔ مفلوک الحال قوم کو لوٹنے والے یہ دینی اور دنیاوی تاجر کروڑ پتی بن گئے اور لوگ بڑی خوشی سے ان کے سامنے قربانی کے بکرے بن رہے ہیں ۔ انہیں ایک طرف دنیا کی رنگ رلیوں میں مصروف رکھا جاتا ہے ۔ دوسری طرف نعت اور منقبت سناکر اپنے آپ سے بے خبر کیا جاتا ہے ۔ اس کی ساری کمائی دوسروں کو آرام دینے پر خرچ ہورہی ہے ۔ خود یہ لوگ قربانی کے بکرے بنے ہوئے ہیں ۔ لوٹ کے اس مال سے مالدار لوگ کئی کئی قربانیاں کررہے ہیں ۔ حج اور عمرہ جیسا بڑا اسلامی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ لیکن عام لوگ جن کی کمائی سے یہ سب کچھ انجام پاتا ہے تقسیم ہونے والی گوشت اور کھجور ملنے کے انتظار میں رہتا ہے ۔ بھاری بن کر جو لوگ اس کا مال لوٹ کر لے گئے وہ بھیک میں اسے کچھ دے دیں تو یہ اپنا منہ میٹھا کرلیتا ہے ۔ ورنہ عید کے موقعے پر بھی یہ تشنہ ہی رہ جاتا ہے ۔
جانوروں کی قربانی یقینی طور اسلام کی ایک اہم عبادت ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ اس حوالے سے واضح احکامات دئے گئے ہیں جنہیں کسی طور بدلا نہیں جاسکتا ہے ۔ لیکن انسانوں کو قربانی کا بکرا بنانا کہیں بھی جائز قرار نہیں دیا گیا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دیندار طبقہ سب سے زیادہ عام لوگوں کا استحصال کررہاہے اور ہر جگہ ان کا خون نچوڑ رہاہے ۔ اسلامی اداروں کی وساطت سے بھی اور اپنے نجی کاروبار کے ذریعے بھی عام لوگوں کو لوٹا جارہاہے ۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ بہ ظاہر دین کی پابندی کرنے والے لوگ دکانداری میں سب سے زیادہ استحصال کرتے نظر آرہے ہیں ۔ اسلام میں تمام عبادات کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ان عبادات کا اہتمام کرنے والا متقی اور پرہیز گار بن جائے ۔ تقویٰ عبادات کی اصل شے ہے ۔ یہی ہماری ساری عبادات کا اصل مقصد ہے ۔ مقصد حاصل نہ ہوجائے تو عبادت منہ پر مار دی جاتی ہے ۔ معاشرتی صورتحال اس بات کی گواہ ہے کہ عبادات کا بڑے پیمانے پر اہتمام کے باوجود تقویٰ یہاں سے چھو کر بھی نہیں گزرا ہے ۔ ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں ۔ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ حج اور عمرہ کرکے آتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہماری زندگی میں کہیں بھی تقویٰ کا نام ونشان نہیں پایا جاتا ۔ تجارت میں بڑے پیمانے پر استحصال بڑھ جائے تو معاشی مستقبل مخدوش ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مستقبل میں ہم کوئی معاشی ترقی کرسکیں ۔ قوم کی دولت چند ہاتھوں اور اداروں کی تحویل میں آگئی ہے جو غیر پیداواری کاموں پر خرچ کی جاتی ہے ۔ اس سے قوم کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ مالی استحکام آج کل کے دور میں زندہ رہنے کی واحد ضمانت ہے ۔ لوگوں کو اس میدان میں استحکام حاصل نہ ہوتو ان کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہے ۔ اس معاملے میں رسمی عبادات اور دینی شعائر کی پابندی کسی طرح سے مددگا ر ثابت نہیں ہوسکتی ہے ۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کو معقول ریٹ پر فروخت کرنے کی بجائے ان کے لئے من پسند قیمت وصول کی جارہی ہے ۔ بہت سے لوگ منڈیوں میں قربانی کے جانور خریدنے کے لئے جاتے ہیں ۔ لیکن شام کو خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں ۔ صحیح ہے کہ مہنگائی کے اس زمانے میں قربانی کے جانور معمولی قیمت پر نہیں مل سکتے ہیں ۔ لیکن فرضی اور اضافی قیمت مقرر کرکے اس سے دین کی کوئی خدمت نہیں کی جارہی ہے ۔ مناسب دام مقرر کئے جاتے تو لوگوں کے لئے مویشی خریدنا آسان ہوجاتا ۔ اس دوران قصایوں کے نخرے بھی بڑھ گئے ہیں ۔ لگتا ہے وہ جانور کے بجائے لوگوں کی گردنوں پرچلانے کے لئے اپنی چھریاں تیز کررہے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ عید کے ایام قصایوں کے لئے آمدنی کا سب سے بڑا سیزن ہوتے ہیں ۔ قصائی ایک طرف نقدی وصول کرتا ہے ساتھ ہی گوشت کا بڑا اور بہترین ٹکڑا اپنے لئے مخصوس کرتا ہے ۔ اس طرح سے وہ موٹی رقم وصول کرنے کے ساتھ کافی مقدار میں گوشت بھی جمع کرتا ہے ۔ شہروں میں یہ لوگ خاصی کمائی کرتے ہیں ۔ اس طرح سے قصایوں کے ہاتھوں بھی لوگ قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں ۔ قربانی کا بکرا بنانے کا یہ کام نیا نہیں ۔ بلکہ کافی عرصے سے جاری ہے ۔ یہ ایک فن ہے جو بہت سے لوگوں نے سیکھ لیا ہے ۔ معلوم نہیں ہم کب تک قربانی کے بکرے بنتے رہیں گے اور اس کو بڑی خوشی سے قبول کرتے رہیں گے ؟