عید کے موقعے پر بڑے پیمانے پر قربانی کی گئی ۔ اطلاعات کے مطابق عید ایام کے دوران ایک ہزار کے قریب بھیڑوں سے لدی گاڑیاں کشمیر در آمد کی گئیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے جانور بھی بڑے پیمانے پر ذبح کئے گئے ۔اسلامی اقدار کے حوالے سے مسلمانوں کی بیداری بڑی حوصلہ افزا بات ہے ۔ تاہم یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اس دوران پھیلائی جانے والی آلودگی کے حوالے سے انتہائی بے حس نظر آتے ہیں ۔ قربانی کے ناقابل استعمال باقیات کے ذریعے شہر وگام جو گندگی پھیلائی گئی وہ ناقابل برداشت ہے ۔ کچھ سال پہلے کئی ادارے قربانی کی کھالیں جمع کرکے ان سے کافی پیسہ کماتے تھے ۔ لیکن جب سے چمڑے کا کاروبار زوال کا شکار ہوا قربانی کے کھال جمع کرنے کا کام بھی ٹھپ ہوگیا ۔ اس وجہ سے ایسے کھال کسی کام کے نہیں رہ گئے ہیں ۔ ان کھالوں کو ادھر ادھر پھینک کر بڑے پیمانے پر گندگی پھیلائی جاتی ہے ۔ اسی طرح اوجڑی کو بھی ضایع کیا جاتا ہے ۔ کھالوں کے ساتھ اوجڑی کو سڑکوں ، کھیتوں اور باغوں میں پھینک کر کتوں کے کھانے کے لئے چھوڑا جاتا ہے ۔ ایسی جگہوں سے گزرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ یہاں کتوں کے گھول جمع ہوتے ہیں جو کسی کو یہاں سے گزرنے نہیں دیتے ۔ اس فعل پر سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ قربانی کے نیک کام کو انجام دیتے ہوئے اس طرح سے آلودگی پھیلانا ہر گز ثواب کا کام نہیں بلکہ الٹا گناہ کا باعث بن رہاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے اقدامات اٹھاکر کسی کو گندگی پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے ۔
مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کے بعد مسلمانوں نے وہاں اسلام کی ترویج کے لئے جو اقدامات اٹھائے ان میں اہم قدم صفائی کا بتایا جاتا ہے ۔ مدینہ اس زمانے میں انتہائی صاف و شفاف اور گندگی سے پاک شہر بتایا جاتا تھا ۔ صفائی کا جو تصور اسلام نے دیا وہ انتہائی بے مثال ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان اس حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دار ثابت ہورہے ہیں ۔ مغرب میں گوشت کا استعمال ہوتا ہے اور لوگ بڑے پیمانے پر گوشت استعمال کرتے ہیں ۔ اس غرض سے ذبح خانے بنائے گئے ہیں جہاں جدید آلات اور طریقہ کار استعمال میں لاکر جانور ذبح کئے جاتے ہیں ۔ کہیں بھی کسی قسم کی گندگی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور وہاں کے شہری انتہائی صفائی پسند ہیں ۔ کشمیر میں بھی پنڈتوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں صفائی پسند مانا جاتا ہے ۔ ان کے چھوٹے بچے مسلمانوں کے بچوں کی نسبت بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کے جسم کے نقش نگار مخصوص طرز کے ہیں ۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ صفائی کی عادت نے انہیں حسن بخشا ہے اور دوسرے بچوں کے مقابلے قابل دید بنایا ہے ۔ ان کی اس صفت نے انہیں قابل احترام بھی بنایا ہے ۔ جو شخص صفائی پسند ہوتا ہے قدرتی طور لوگ اسے اپنے سے بالا تر سمجھ کر اس کی تکریم کرتے ہیں ۔ اس کے بجائے جو لوگ گندگی کے عادی ہوتے ہیں وہ قابل نفرت سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ 15 سو سال گزرننے اور اس دوران مسلسل صفائی کی اہمیت سمجھانے کے باوجود مسلمان گندگی سے نجات حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔ بلکہ ان کے معاشرے گندگی سے لدے پڑے ہیں ۔ ہمارے یہاں گھروں ، سڑکوں اور تفریح کے دوسرے مقامات پر آج بھی گندگی کے ڈھیر موجود ہوتے ہیں ۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ قربانی کرنے کے بعد کوئی مسلمان ان کے باقیات کیسے سر راہ پھینکنے کی جرات کرتا ہے ۔ ایک زمانے میں مسلمان اس بات پر بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ قربانی کے جانور کا گوشت استعمال کرکے جو ہڈیاں بچ جاتی ہیں ان سے کیسا سلوک کیا جانا چاہئے ۔ علما کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ ایسی ہڈیوں کو دفن کیا جانا چاہئے ۔ کشمیر میں کئی علما نے فتویٰ دیا تھا کہ قربانی کے جانور کا گوشت پیٹا نہیں جانا چاہئے ۔ کشمیر میں گوشت کو مختلف طریقوں سے پکانے کا رواج ہے ۔ اس گرض سے گوشت کو پیٹا جاتا ہے ۔ لیکن کئی علما نے فتویٰ دیا تھا کہ اس طرح سے قربانی کے گوشت کو پیٹا نہیں جاسکتا ہے ۔ ایسا قربانی کے جذبے اور اس کی تعظیم کے مدنظر کہا جاتا تھا ۔ ایسے علما جو قربانی کے جانور کے ساتھ اس کو ذبح کرنے کے بعد اس کی تعظیم کے قائل تھے آج زندہ ہوکر قربانی کے کھالوں اور دوسرے کئی حصوں کے ساتھ لوگوں کا سلوک دیکھیں تو یقینی طور ان پر شاک گزرے گا ۔ یہ بات رنج دہ ہے کہ عوام دینی شعار کی قدر کرتے ہوئے قربانی کی سنت انجام تو دیتے ہیں لیکن اس دوران انسانی اقدار کو فراموش کرتے ہیں ۔ یہ ہرگز جائز نہیں کہ قربانی کے کھالوں اور دوسرے حصوں سے آلودگی پھیلائی جائے ۔ کئی لوگوں کی طرف سے مشورہ دیا گیا تھا کہ ایسی اشیا کو زمین میں دفن کیا جائے ۔ لیکن لوگوں نے ان اشیا کو تھیلوں میں بھرکر گندگی پھیلانے کا کام کیا جو شرمندگی کا باعث بن رہاہے ۔ آئندہ سے اس طرح کے ناقابل برداشت کاموں پر روک لگانا ضروری ہے ۔