حال ہی میں یہ بات سامنے آئی کہ سرینگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر نو کا پلان تیار کیا گیا ہے ۔ مذکورہ پلان کے تحت شہر میں لگ بھگ 350 کلومیٹر طویل سڑکوں پر تار کول بچھایا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے مختلف محکموں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا جارہاہے اور مختلف تعمیراتی ایجنسیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد سڑکوں کی تعمیر نو کا منصوبہ ہاتھ میں لیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے منعقدہ ایک حالیہ میٹنگ میں بتایا گیا کہ ان کاموں کے لئے متعلقہ اداروں نے پہلے ہی ٹینڈر شایع کئے ہیں اور بہت جلد کام کا آغاز ہوگا ۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی سڑکوں پر تار کول بچھانے کا کام پہلے ہی شروع کیا جاچکا ہے ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ شہر کی سڑکوں کی تعمیر نو میں سخت دلچسپی کا اظہار کیا جارہاہے ۔ اس منصوبے کے تحت مبینہ طور اہم اور مصروف ترین سڑکوں کی اپ گریڈیشن عمل میں لائی جارہی ہے ۔ شہر کی اندرونی سڑکوں کے علاوہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کو جانے والی سڑکوں کو بھی بہتر کیا جارہاہے جہاں لوگوں کو آنے جانے میں سخت مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ اسی طرح سے شہر کے مضافات میں موجود کئی دیہی سڑکوں کو بھی بہتر بنایا جارہاہے ۔ سمارٹ سٹی کے حوالے سے جو دعوے کئے جارہے ہیں ان کے تناظر میں شہر کی سڑکوں کی اپ گریڈیشن کو ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں کی اپ گریڈیشن کو ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا جارہاہے ۔ اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دئے جانے کے بعد شہر میں نہ صرف نقل و حمل میں آسائش ہوگی بلکہ کئی طرح کی دوسری مشکلات پر قابو پانا ممکن ہوگا ۔ اس سے عام شہریوں کو بڑی سہولیات میسر آئیں گی ۔
پچھلے دس سالوں کے دوران مرکزی سرکار نے پورے ملک میں سڑکوں کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے جو سڑکیں خستہ حال ہوگئی تھیں آج شاندار انداز میں چلنے پھرنے کے لائق سمجھی جاتی ہیں ۔ سرکار نے پینے کے پانی کی فراہمی کے علاوہ سڑکوں کی اپ گریڈیشن کو یقینی بنانے کے لئے کافی سرمایہ فراہم کیا ۔ کشمیر میں بھی اس حوالے سے بڑے پیمانے پر سڑکوں کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دیا گیا ۔ ایک طرف سرینگر جموں شاہراہ کو بہتر ڈھنگ سے تعمیر کیا گیا ۔ دوسری طرف دوردراز کے دیہات میں سڑکوں کی جدید کاری عمل میں لائی گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ سال پہلے دہلی اور ممبئی سڑکوں کو دیکھ کو جس حیرانی کا اظہار کیا جارہاتھا وہ آج کشمیر میں حقیقت بن گئی ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں موجود بستیوں تک بہتر طرز کی سڑکیں تعمیر کی گئیں ۔ تاہم یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ اس دوران سرینگر اور اس کے مضافات میں موجود سڑکوں پر کوئی خاص کام نہیں ہوا ۔ یہاں فلائی اوور تعمیر کرنے پر تو کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تاہم عام سڑکوں کو بہتر بنانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ اس وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا رہا ۔ بلکہ آئے دن کے ٹریفک جام کے لئے سڑکوں کی خستہ حالی اہم وجہ سمجھی جاتی ہے ۔ تنگ سڑکوں پر گاڑیوں کو چلانے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے ۔ اس وجہ سے مبینہ طور ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرینگر میں بارشوں کے پانی کے نکاس میں جن اڑچنوں کا سامنا رہتا ہے ان میں سڑکوں کے بے ڈھنگ ہونے کا بھی حصہ ہے ۔ اگرچہ اس کام میں ناکارہ ڈرینج سسٹم کو اصل سبب بتایا جاتا ہے ۔ تاہم سڑکوں کی خستہ حالی بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے ۔ اب انتظامیہ نے جب سڑکوں کی بہتر تعمیر کا کام انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے تمام معاملات کو نظر میں رکھ کر کام کو آگے بڑھایا جائے گا ۔ سرینگر میں سڑکوں کے معاملات بہت ہی پیچیدہ ہیں ۔ سب سے اہم پیچیدگی سڑکوں کی کشادگی کے دوران تعمیرات کو منہدم کرنے کا معاملہ ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ اس کام کو انجام دینے کے دوران ایک سپاہی سے لے کر ڈی سی تک سارے اہلکاروں کی نظر انہدامی مہم پر ہوتی ہے ۔ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعمیرات کو زمین بوس کیا جائے ۔ پھر اس کے ویڈیوز کو تشہیر دینے میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ساٹھ ستھر سال پہلے کھڑا کی گئی تعمیرات پر بلدوزر چلایا جاتا ہے ۔ پھر اس کام کو عوام کے فائدے کا کام قرار دیا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے متاثرین وک جس صدمے سے گزرنا پڑتا ہے اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی ۔ یہاں تک کہ متاثرین کے ساتھ کوئی چپراسی بھی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ اس وجہ سے تعمیراتی کام انجام دینے سے حکومت کو جو شاباشی ملنی چاہئے وہ نہیں ملتی ۔ بلکہ لوگوں کی گالیاں سننی پڑتی ہے ۔ انہدامی کام بہت ہوچکا ۔ اب مزید ڈھانچوں کو گرانے کے بجائے تعمیر و ترقی کا کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے دوران ان کے دل مجروح کئے جائیں تو بہتر کام کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی ۔ بہتر یہی ہے کہ لوگوں کی ملکیت کو اجاڑنے کے بجائے انہیں راحت پہنچانے کا کام انجام دیا جائے ۔ یہی عوام اور سرکار دونوں کے لئے باہمی رفاقت بڑھا سکتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ کہ لوگوں نے سرکاری اور عوامی اراضی کو ہڑپ کیا ہے ۔ لیکن ایسا کرنے کے بعد انہوں نے کروڑوں روپے کے تعمیرات بنائے ہیں ۔ انہیں چھیڑنا اور سڑکیں تعمیر کرنا نقصان دہ ہے ۔ درمیانی راستہ تلاش کرنا عوام دوستی کاکام ہے ۔