پورے ملک کے ساتھ جموں کشمیر میں گرمی کی شدید لہر پائی جاتی ہے ۔ منگلوار کو رواں موسم کا گرم ترین دن ریکارڈ کیا گیا ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ سرینگر کے علاوہ کئی دور دراز کے علاقوں میں درجہ حرارت 35 ڈگری کے آس پاس ریکارڈ کیا گیا ۔ اس طرح کی گرمی لوگوں کے لئے سخت مشکلات کا باعث بن رہی ہے ۔ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ جمعرات تک موسم میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے ۔ بلکہ گرمی کی لہر میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ لوگوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ خود کو گرمی سے بچانے کی کوشش کریں اور کھلے دھوپ میں نکلنے سے احتراز کریں ۔ پچھلے کئی روز سے کشمیر میں گرمی کی شدید لہر پائی جاتی ہے اور لوگ گھروں کے اندر بھی سخت مشکلات سے دوچار ہیں ۔ اس وجہ سے بچوں کے صحت پر بھی اثر پڑرہاہے ۔ بدقسمتی سے کشمیر میں گرمی سے بچائو کے کوئی تدابیر نہیں پائے جاتے ہیں ۔ بجلی کی بار بار کی کٹوتی کی وجہ سے کولر اور پنکھے چلانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان آلات کے استعمال سے بجلی کا جو بل آتا ہے وہ عام لوگوں کی برداشت سے باہر ہے ۔ اس وجہ سے اے سی وغیرہ کے استعمال سے لوگ بچنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ سردی سے بچائو کے تدابیر لوگ خود تو کرتے ہیں ۔ ایسے تدابیر میں حمام کی تعمیر کے علاوہ کانگڑی کا استعمال بڑا اہم ہے ۔ اس کے علاوہ گرم ملبوسات اور دوسرے تدابیر سے سردی سے بچائو ممکن ہوتا ہے ۔ لیکن گرمی سے بچنے کے لئے عوام کے پاس کوئی سہولت میسر نہیں ہے ۔ ایسے موسم میں نوجوان ندی نالوں میں نہاکر یا کچھ دنوں کے لئے پہاڑی علاقوں میں جاکر خود کو راحت پہنچاتے ہیں ۔ تاہم عام لوگوں خاص کر معمر افراد کے لئے گرمی سے بچائو کی کوئی سہولت میسر نہیں ۔ سرکار لوگوں کو اس وجہ سے گھیرے ہوئے ہے کہ بجلی کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے ۔ بجلی چوری کو لے کر عام لوگ پر تلوار لٹکائی گئی ہے ۔ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ ان کی مالی طاقت سے بڑھ کر بجلی فیس وصول کیا جاتا ہے ۔ کئی حلقوں کی طرف سے اس پر تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔ بلکہ غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والوں کو بجلی فیس میں کوئی چھوٹ دینے کو تیار نہیں ۔ دیکھا گیا کہ لوگوں نے مسجدوں ، مندروں اور دوسرے عوامی مقامات پر اے سی کا استعمال ترک کیا ہے ۔ میٹر نصب کرنے کی وجہ سے ایسے آلات استعمال کرنا ممکن نہیں رہاہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ رواں گرمی کی لہر کی وجہ سے سیاحوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ رات کو ان کے ٹھہرنے کی جگہوں پر گرمی سے بچائو کے آلات چالو رکھنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ سرکار اس حوالے سے بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے اور کسی قسم کی راحت دینے کو تیار نہیں ۔
گرمی کی جو لہر آج وادی کشمیر میں پائی جاتی ہے یہ زیادہ چل نہیں سکتی ہے ۔ بلکہ بہت جلد برسات کے شروع ہونے اور بارشوں کے آنے کا امکان ہے ۔ اس سے گرمی کی لہر کے ٹوٹنے کا قوی امکان ظاہر کیا جاتا ہے ۔ تاہم چند ایام کی گرمی کے دوران لوگوں کو راحت پہنچانے کے اقدامات بہت ضروری ہیں ۔ سرکار ان ایام کے دوران بجلی کی کٹوتی کو کم سے کم کرنے کے احکام دے تو لوگوں کو بہت حد تک راحت مل سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ صارفین کو بجلی کے کچھ یونٹ مفت دینے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے کوئی سوچ وبچار نہیں ہورہاہے ۔ سیاسی حلقے آنے والے اسمبلی انتخابات کے بارے میں صلاح مشورے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لوگوں کو ابھی سے سبز باغ دکھائے جارہے ہیں ۔ لیکن موجودہ مشکل صورتحال کے اندر لوگوں کو راحت پہنچانے کے حوالے سے تمام سیاسی حلقے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں لوگوں کو مفت بجلی اور صاف پانی کے کئی سو اضافی لیٹر فراہم کئے جاتے ہیں ۔ تاکہ لوگ گرمی سے راحت محسوس کریں ۔ اس کے برعکس کشمیر میں اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی پائی جاتی ہے ۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو ایک مستحکم حکومت فراہم کرنے کا وعدہ کریں ۔ لوگوں کو اس وجہ سے زیادہ فرق پڑنے والا نہیں ہے کہ کب اور کس کی حکومت بنتی ہے ۔ لوگ موجودہ گرمی کی لہر کی وجہ سے خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں ۔ سرکار نے سولر بجلی پروجکٹوں کی تعمیر کے لئے منصوبے ضرور بنائے ہیں ۔ سولر بجلی ملنے سے لوگ یقینی طور بڑی حد تک راحت محسوس کریں گے ۔ ایسے منصوبوں کے اثرات جب تک ہر گھر تک پہنچ جائیں اس وقت تک عام شہریوں کو گرمی سے نجات دلانے کی از حد ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے کوئی منہ کھولنے کو تیار نہیں ۔ قدرت کب رحم پر آتی ہے اور گرمی کی شدت میں کمی آتی ہے لوگ اسی کا انتظار کررہے ہیں ۔ انتظامیہ بھی شاید اسی انتظار میں ہے ۔ اس دوران لوگوں کو راحت پہنچانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار کے علاوہ نجی ادارے متحرک ہوکر لوگوں کے پاس پہنچ جائیں اور انہیں مختلف اسکیموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گرمی سے بچائو کے اقدامات کرنے کی طرف راغب کریں ۔ اندازہ ہے کہ گرمی کی یہ صورتحال وقتی نہیں بلکہ ایسی مشکلات کا آگے بھی سامنا کرنا ہوگا ۔ اس حوالے سے مستقل انتظامات کرنے کی ضرورت ہے ۔