بجلی محکمے کی طرف سے یہ بات بڑے فخر سے کہی جارہی ہے کہ پچھلے تین مہینوں کے دوران 13 ہزار سے زائد نئے صارفین کے کنکشن رجسٹر کئے گئے ۔ حالانکہ اس دوران واجبات کی عدم ادائیگی پر 11 ہزار سے زائد صارفین کے کنکشن منقطع کئے گئے ۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بجلی کے صارفین میں اضافہ کیا گیا جس سے یقینی طور محکمے کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ۔ تاہم یہ بات افسوس کے لائق ہے کہ کئی ہزار ایسے صارفین کے کنکشن کاٹ دئے گئے جو وقت پر بجلی فیس ادا نہیں کرسکے ۔ اس کے بجائے کہ ان صارفین کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاتا اور فیس ادا نہ کرنے کی وجوہات تلاش کی جاتی ۔ محکمے کے اہلکاروں نے ان کے کنکشن کاٹ دئے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ایسے زمانے میں جبکہ لوگوں کے لئے اپنا پیٹ پالنا دشوار ہورہاہے بجلی کو مہنگا بنایا جارہاہے ۔ بجلی کے جو بل صارفین کو فراہم کئے جارہے ہیں مبینہ طور انتہائی نامعقول ہیں ۔ کئی علاقوں کے لوگ الزام لگارہے ہیں کہ سمارٹ میٹر نصب ہونے کے باوجود ان کو استعمال شدہ بجلی سے زیادہ بل فراہم کئے گئے ہیں ۔ اسی طرح کئی علاقوں کے لوگوں نے مئی اور جون کے مہینوں کے بل دکھا کر بجلی فیس میں اضافے کے ثبوت فراہم کئے ۔ اس کے باوجود محکمہ بجلی کے اہلکار بجلی فیس میں کسی قسم کے اضافے سے انکار کررہے ہیں ۔ بجلی فیس میں اضافے کی نئی اصطلاحات استعمال کرکے صارفین پر ایسا بوجھ ڈالا جارہاہے جو ان کے لئے برداشت کے قابل نہیں رہاہے ۔ اس وجہ سے لوگ ایک بار پھر بجلی نظام سے سخت مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔ حال ہی میں ایسے صارفین کی طرف سے جن کے کشمیر کے علاوہ جموں میں مکانات موجود ہیں بجلی فیس میں واضح تفاوت کی مثالیں سامنے لائیں ۔ جموں میں زیادہ بجلی استعمال کرنے کے باوجود وہاں صارفین سے کم فیس وصول کی جاتی ہے ۔ جبکہ سرینگر میں اس کے مقابلے میں بہت زیادہ فیس وصول کی جارہی ہے ۔ یہ بات واقٓعی حقیقت پر مبنی ہوتو انتظامیہ کی دوہری پالیسی کی نشاندہی کررہی ہے ۔ کشمیر میں غریب عوام کے لئے بجلی کا استعمال ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہورہاہے ۔ خاص طور سے ان لوگوں کے لئے جن کے پاس آمدنی کا کوئی ذریع نہیں ہے بجلی نعمت کے بجائے زحمت ثابت ہورہی ہے ۔
کشمیر میں بجلی سرکار اور عوام دونوں کے لئے ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہی ہے ۔ سرکار عوام کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے کہ بجلی کا غیر منصفانہ استعمال کیا جارہاہے ۔ اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ میٹر والے علاقوں میں بجلی چوری کے واقعات رونما ہونے کا الزام لگایا جارہاہے ۔ دوسری طرف عوام کو شکایت ہے کہ بڑی مقدار میں بجلی کی پیداوار کے باوجود انہیں مناسب انداز میں بجلی فراہم نہیں کی جاتی ہے ۔ ضرورت کے اہم مواقع پر بجلی کی فراہمی روک دی جاتی ہے ۔ ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں کشمیر میں بجلی کی فراہمی کے نظام کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ دونوں فریقوں کے تحفظات صحیح ہیں ۔ تاہم یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ بجلی نظام کو منصفانہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ محکمہ بجلی یک طرفہ طور اقدامات کرکے سارا ملبہ صارفین پر ڈال رہی ہے ۔ حالانکہ سو فیصد صارفین ہر گز غلط نہیں ہیں ۔ حکومت نے ایک مرحلے پر بجلی کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کا اشارہ دیا تھا ۔ بعد میں اس فیصلے کو منسوخ کیا گیا ۔ صارفین کے بجلی فیس کی ادائیگی میں ٹال مٹول کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کشمیر سے حاصل ہونے والی بجلی کے علاوہ بجلی فیس سرکار کے لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے اور حکومت اس آمدنی کو ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتی ۔ اس کے علاوہ کوشش کی جارہی ہے کہ بجلی فیس میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ بجلی پر اٹھایا جانے والا خسارہ صفر تک پہنچ جائے ۔ اس دوران صارفین کے لئے کیسی بھی مشکلات پیدا ہوجائیں اس کو نظر انداز کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں ۔ مرکزی سرکار مبینہ طور اس بات کے لئے تیار نہیں کہ صارفین کو مفت راحت کاری کی چیزیں فراہم کی جائیں ۔ پانی ، گیس ، بجلی وغیرہ جو بھی چیزیں سرکار کی طرف سے فراہم کی جارہی ہیں ان کے لئے ملنے والی سبسڈی کو بتدریج کم یا ختم کیا جارہاہے ۔ حکومت خسارے کا کوئی کام کرنے کے حق میں نہیں ہے ۔ خاص طور سے سبسڈی کی عادت کو اب بدلنے کا مشورہ دیا جارہاہے ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وادی کے عوام کے لئے بجلی کا مصرف ایک بڑی مصیبت سے کم نہیں ۔ اس معاملے میں لوگوں کا جو ذہنی ٹارچر ہورہاہے لوگ اس پر نالاں ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ بجلی کے بوجھ کو کم کیا جائے ۔ لوگ بجلی چوری شوق سے نہیں بلکہ انتہائی مجبوری کی حالت میں کررہے ہیں ۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران بجلی فیس میں مسلسل اور بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہاہے ۔ اس سے پہلے لوگ یہ اندازہ نہیں کررہے تھے کہ بجلی سونے کے بھائو فراہم کی جائے گی ۔ ایک تو بجلی کا نظام درست نہیں ۔ دوسرا بجلی فیس میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے ۔ عوام کے لئے بجلی کا استعمال ایک بڑا بوجھ ہے اور یہ بوجھ اٹھانا ان کی سکت سے باہر ہے ۔ اس مسئلے پر عوام دوست پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔