چیف سیکریٹری اٹل ڈلو نے انتظامی اہلکاروں کو ہدایت دی کہ لوگوں کے لئے بجلی اور پینے کے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حوالے سے حالات کا جائزہ لیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ بجلی اور پانی کی سپلائی میں کسی طرح کا کوئی خلل نہ آنے دیا جائے ۔ اس دوران کئی علاقوں میں لوگوں نے پانی کی شدید قلت پر احتجاج کرتے ہوئے پینے کے پانی اور کھیتوں میں پانی کی عدم موجودگی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ کئی علاقوں بلکہ وادی کے اکثر علاقوں سے اطلاع ہے کہ ندی نالی خشک ہوگئے ہیں اور واٹر سپلائی میں سخت کمی پائی جاتی ہے ۔ حکومت کوشش کررہی ہے کہ بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پانی کی سپلائی کو یقینی بنایا جائے ۔ لیکن صورتحال ایسی ہے کہ حالات پر قابو پانا مشکل ہورہاہے ۔ یہ مودی کی گارنٹی ہے کہ ہر گھر نل اور پانی ضرورت کے مطابق فراہم رکھا جائے ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران مرکزی سرکار کی طرف سے جل شکتی کے محکمے کو فعال بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ۔ اس سرمایے سے واٹر سپلائی کی نئی اسکیمیں تیار کی گئیں اور پائپوں کا جال بچھایا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ جن بستیوں میں پہلے سے واٹر سپلائی اطمینان بخش تھی انتظامیہ نے وہاں بھی نئی پائپیں بچھائیں ۔ اگرچہ بیشتر ایسی اسکیمیں ابھی تک چالو نہیں ہوسکی تاہم عوام کو یقین ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر انہیں پینے کے لئے موذون انداز میں پانی میسر آئے گا ۔ ایسا پانی صحت کے لئے مناسب ہونے کا امکان بھی ہے ۔ اس سے پہلے کئی بار دیکھا گیا کہ نلوں سے میسر آئے گندے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل گئی ۔ خاص طور سے یرقان کی بیماری کے حوالے سے طبی ماہرین الزام لگاتے ہیں کہ لوگوں کو گندہ پانی بہم پہنچانے کی وجہ سے بیماریاں پھیل جاتی ہیں ۔ اس وجہ سے لوگ سرکاری پانی پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے ۔ مجبوری کے حالات میں اس پانی کو استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ عوام پینے کے پانی کی قدر نہیں کرتے ۔ بلکہ اسے ضایع کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے ضرورت مندوں کو پانی میسر نہیں آتا ہے ۔ بہت سے لوگ نلوںسے ملنے والے پانی کو اپنی گاڑیاں صاف کرنے اور سبزیوں کے لان محفوظ بنانے میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے نہ صرف پانی ضایع ہوتا ہے بلکہ پریشر کم ہونے سے اونچے مکانوں تک اس کی رسائی ناممکن بن جاتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکاری دفتروں میں توٹے پھوٹے واش روموں سے رات دن پانی بہتا رہتا ہے ۔ اس پانی کو روکنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ اس کا براہ راست اثر آس پاس موجود رہائش پذیر لوگوں پر پڑتا ہے ۔ اس وجہ سے ہر گھر کو بلا خلل پانی میسر آنا ممکن نہیں ہورہاہے اور لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔
مسلسلخشک سالی کی وجہ سے اس وقت وادی میں پانی کا بحران پایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں بارش میں پچاس فیصد کمی پائی گئی ۔ اس وجہ سے پہلے ہی پندرہ فیصد بجلی کی پیداوار کم ہوگئی ہے ۔ بجلی محکمے کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں کمی کے باوجود صارفین کو شیڈول کے مطابق بجلی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس دوران محکمے نے بڑی تکنیکی طور طریقے اپنا کر بجلی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا ۔ سرکار اعلان کررہی ہے کہ بجلی فیس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ جبکہ بجلی بلیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صارفین کو ان کی طاقت سے زیادہ بجلی فیس ادا کرنا پڑرہاہے ۔ اس طرح کے تضاد کے حوالے سے کچھ کہنا ممکن نہیں ۔ البتہ کئی علاقوں میں بجلی سپلائی بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے ۔ اسی طرح پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ لیکن قدرت نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری کوششوں کو ناکام بنادیا ۔ جب پانی موجود ہی نہیں ۔ چشمے سوکھ گئے اور ندی نالوں میں پانی ریکارڈ حد تک کم ہوگیا ہے تو نلوں میں سپلائی ہونے والا پانی کہاں سے آئے گا ۔ کئی علاقوں میں اوور ہیڈ ٹنکیاں دھنس رہی ہیں اور لوگ پریشانی محسوس کررہے ہیں ۔ مجموعی طور عوام شدید گرمی اور خشک سالی سے سخت پریشان ہیں ۔ ایسی صورتحال کا پہلی بار سامنا کرنا پڑرہاہے کہ درجہ حرارت تیس پنتیس ڈگری تک پہنچ جانے کے باوجود بارش نہیں ہورہی ہے ۔ ادھر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ ہیٹ ویو مزید کئی دنوں تک جاری رہ سکتی ہے ۔ اس سے پانی میں مزید کمی آنے اک اندیشہ ہے ۔ بلکہ پہلے سے اس حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے ۔ مایوسی دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ ہیٹ ویو کے پورے کاروبار زندگی پر اثرات پڑ رہے ہیں ۔ سبزیوں کی شدید کمی پائی جاتی ہے ۔ فصلوں پر منفی اثرات پڑرہے ہیں ۔ میوہ باغات خاکستر ہورہے ہیں ۔ جنگلوں میں آگے کا خطرہ بڑگیا ہے ۔ زندگی گزارنا مشکل ہورہاہے ۔ گرمی سے بچائو کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ ماضی میں کئی بار اس طرف توجہ دلانے کے باوجود سرکار پیشگی منصوبے بنانے میں ناکام رہی ۔ پانی کو ذخیری کرنے اور گلیشروں کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ اب بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے ۔ اس وجہ سے پانی کی سپلائی متاثر ہونے بلکہ ختم ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اس مرحلے پر جاگ جانے کی ضرورت ہے ۔