راج سبھا کو اطلاع دی گئی کہ جموں کشمیر میں منشیات کے پھیلائو میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اس حوالے سے بولتے ہوئے داخلی امور کے مرکزی وزیرمملکت نے دعویٰ کیا کہ نشہ مکت بھارت پروگرام کے تحت حکومت کی کوششوں سے منشیات کے پھیلائو پر قابو پانا ممکن ہوسکا ۔ وزیر موصوف نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بولتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کوششوں سے اس طرح کی کامیابی حاصل کرنا ممکن ہوگیا ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر نے تحریری جواب میں کہا کہ نشے سے نجات کے لئے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے تفصیل دیتے ہوئے کہا گیا کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں کشمیر میں منشیات کے کیسوں میں قدرے کمی دیکھی گئی اور کل 1014 کیس درج کئے گئے ۔ حکومت کے کئی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے اجلاس میں بتایا گیا کہ منشیات کے پھیلائو پر قابو پانے کے لئے سرکار سخت کوششیں کررہی ہے ۔ نشہ مکت بھارت ابھیان کے تحت کئی اسکیمیں بنائی گئی ہیں جو لوگوں کو منشیات کی لت سے دور رکھنے میں مدد دے رہی ہیں ۔ سرکار نے مبینہ طور لاکھوں لوگوں تک رسائی حاصل کی جن میں چھ لاکھ کے قریب نوجوان شامل ہیں ۔ ایسے لوگوں کو منشیات کی مضر اثرات اور اس کے استعمال سے نجات حاصل کرنے کے لئے جانکاری فراہم کی گئی ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوششیں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں ۔ اگرچہ منشیات کے پھیلائو پر مکمل قابو پانا ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ تاہم پہلے کے مقابلے میں کافی کامیابی حاصل کی گئی ہے ۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ منشیات کا پھیلائو کشمیر میں آہستہ آہستہ کم ہورہاہے ۔ اس ناسور پر یکمشت قابو پانا ہر گز ممکن نہیں ۔ جو کوئی بھی اس کا عادی ہوجاتا ہے مرتے دم تک اس لت سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے ۔ کئی حلقوں کو شکایت ہے کہ حکومت منشیات کے حوالے سے اس کے کاروبار کو روکنے کی کوششوں میں لگی ہے ۔ نوجوان اس لت کا کیونکر شکار ہوتے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی تنائو کا شکار ہیں ۔ اس طرح کے تنائو سے نجات حاصل کرنے کے لئے یہ نوجوان منشیات کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ ایسے حلقے الزام لگارہے ہیں کہ روزگار فراہم کرنے کے لئے کوئی مضبوط پالیسی حکومت کے پاس موجود نہیں ہے ۔ پچھلے کئی سالوں سے دیکھا گیا کہ نوجوان روزگار کے حوالے سے سخت پریشان ہیں ۔ اس کے نتیجے میں مبینہ طور جرائم کا گراف بڑھنے کے ساتھ ساتھ خود کشی کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ پہلے اس طرح کی صورتحال ملک کے دوسرے حصوں میں پائی جاتی تھی ۔ لیکن اب کئی سالوں سے جموں کشمیر میں خود کشی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن رہے ہیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں باقی ملک کے مقابلے میں خود کشی کے زیادہ واقعات پیش آرہے ہیں ۔ دریائے جہلم میں کودنے اور خود کو موت کے گھاٹ اتارنے کے سرینگر اور دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر واقعات پیش آتے ہیں ۔ ایسے واقعات میں گھریلو تشدد کے واقعات بھی شامل دیکھے گئے ہیں ۔ لیکن ان واقعات کے تہہ تک پہنچنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں تلخیان مالی مشکلات کا نتیجہ ہیں ۔ بہت سی خواتین یقینی طور ساس نند کے جھگڑوں سے تنگ آکر خود کشی کرتی ہیں ۔ لیکن کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جن کے پس پردہ بے روزگاری کا مسئلہ دیکھا گیا ہے ۔ اس طرح کے مسائل خود کشی اور منشیات میں ملوث ہونے کا باعث بن رہے ہیں ۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ منشیات کے کیسوں میں اس سال کمی دیکھنے کو ملی ہے ۔ اس پر راجیہ سبھا میں موجود ممبران نے خوشی کا اظہار کیا ۔ لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہونی چاہئے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران جس طرح سے پولیس نے نوجوانوں کو منشیات کے تھیلے لیتے ہوئے پکڑا ۔ بلکہ ایسے کیسوں میں ملوث بہت سے مجرموں کے مکان اور دیگر اثاثے بڑے پیمانے پر قرق کئے گئے ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ ایسی پراپرٹی بنانے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ اسی پراپرٹی سے جڑی ہوتی ہے ۔ سرکار کی طرف سے ایسے قرق کرنے کی کاروائی سے اس کی زد میں آنے والے افراد کا نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ سماج میں ان کا مرتبہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا سماج میں اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ کئی معاملات میں دیکھا گیا کہ ایسے گھروں میں موجود لڑکوں لڑکیوں کے رشتے طے کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ ان کے دامن پر لگنے والے داغ مٹانا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ سرکار کی ایسی کاروائی بڑی سخت مانی جاتی ہے ۔ تاہم سرکار کا کہنا ہے کہ سخت کاروائی سے منشیات کے پھیلائو پر قابو پانا ممکن ہوسکا ۔ ایسے منشیات کے کئی کیسوں کا تعلق مبینہ طور ملی ٹنسی سے جڑا ہونے کی بات بھی سامنے آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کاروبار کو مکمل طور ختم کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ایسی کوششوں کو روکنے کا مشورہ نہیں دیاجاسکتا ہے ۔ بلکہ اس حوالے سے کوششوں کو بڑے پیمانے پر سراہا جارہاہے ۔