محکمہ موسمیات نے اندازہ لگایا ہے کہ اگلے دو مہینوں کے دوران بہتر اوسط بارش ہوگی ۔ ملک بھر میں اگست اور ستمبر کے مہینوں میں معمول سے زیادہ بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ کشمیر کے حوالے سے اگرچہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ موسم کا حال کیسا رہے گا ۔ پچھلے کئی مہینوں سے یہاں مسلسل خشک سالی پائی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے کھیت کھلیان اور باغات میں تباہی مچ گئی ہے ۔ بہت سے علاقوں میں فصلوں میں کمی ہونے کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ اس دوران باغ مالکان میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایک طرف میوے گررہے ہیں ۔ دوسری طرف درختوں میں نئی بیماریاں ظاہر ہورہی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہورہاہے ۔ کسان پہلے ہی پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سرکار نے اس حوالے سے معنی خیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ کسانوں کا حوصلہ بڑھانے اور دلاسہ دینے کے لئے ایک بیان تاحال سامنے نہیں آیا ہے ۔ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار اپنی تنخواہ حلال کرنے کے لئے گائوں دیہات کے دورے کررہے ہیں ۔ ایسے آفیسروں میں اگریکلچر اور ہارٹیکلچر کے سربراہ بھی شامل ہیں جو دوردراز کے علاقوں میں جاکر متاثرہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں ۔ اس بات چیت کا کوئی مقصد ہے نہ اس سے کوئی فائدہ مل رہاہے ۔ زبانی جمع خرچ کی ان باتوں سے خشک سالی ختم ہوسکتی ہے نہ کسانوں کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں ۔ یہ اہلکار کسانوں کو ایسے مشورے دے رہے ہیں جن سے کسی طرح کا مداوا ممکن نہیں ۔ ہاں آفیسر اپنا الو سیدھا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر سرکاری عہدیداروں کے بلا مقصد دورے کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہیں ۔ اب تک یہی نظر آتا ہے کہ اپنی ٹور ڈائری بنانے اور کرچے حاصل کرنے کی خاطر یہ آفیسر ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں ۔ ان کے دوروں سے کسانوں کو کوئی راحت ملی ہے نہ اس کا کوئی اندازہ ہے ۔ ایسے موقعوں پر صورتحال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن ایسا کہیں ہوتا نظر نہیں آرہاہے ۔ کسان تنہا قدرت کی اس آفت کا شکار ہورہے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو کوئی تیار نہیں ۔ دوسرے تمام طبقے موج مستی کرتے نظر آرہے ہیں ۔ کسانوں کو اس طرح بے بس چھوڑنا قومی ذمہ داری سے فرارہے ۔ کسان پہلے ہی ناقابل برداشت صورتحال سے تنگ آکر خود کشی کررہے ہیں ۔ اس مرحلے پر خواب خرگوش سے بیدار ہوکر خشک سالی کی اس صورتحال کو سیریس لینے کی ضرورت ہے اور طویل مدتی منصوبے تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا پہلا فرض ہے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو آگے جاکر ہماری بے حسی تباہ کن ثابت ہوگی ۔
طویہ مدت سے پائی جانے والی خشک سالی کے نتیجے میں کشمیر کے حوالے سے اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ ریگستان میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔ ملک کے بیشتر علاقے اپنے وقت کے حکمرانوں کی بے حسی اور لوگوں کی بے بسی کی وجہ سے ریگستان بن گئے ہیں ۔ راجستھان اور آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں نے بر وقت حفاظتی انتظامات کئے ہوتے تو یہ علاقے ریگستانوں کے بجائے سرسبز جنگلات ہوتے ۔ آج یہاں پانی کی جو کمی پائی جاتی ہے وہ حکمرانوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے ۔ اس زمانے میں ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا تو آج یہاں لوگ پانی کی ایک بوند کو نہ ترستے ۔ بہت جلد کشمیر میں بھی اسی صورتحال کا سامنا ہوگا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ سڑکیں اور پل بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے ۔ ہوٹل اور ریستوران بنانے کا کام سرعت سے کیا جارہاہے ۔ ریلوے لائینیں بچھانے پر توجہ دی جارہی ہے ۔ لیکن لوگوں کو قدرتی آفات سے بچانے کی کوئی فکر نہیں کی جاتی ہے ۔ جب لوگ ہی نہ بچ جائیں تو تعمیراتی کاموں کا مقصد کیا ہے ۔ اس سے کیا حاصل ہونے والا ہے ۔ دقیانوسی طرز حکمرانی جاری رہی تو کشمیر کی خوبصورتی ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا ۔ جنت بے نظیر کی مثالیں ایک خواب بن کر رہ جائیں گی ۔ حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی آنے والے دشور کن حالات سے بے خبر ہیں ۔ کسی کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ۔ حیرانی کی بات ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کشمیر سے گئے ہوئے عوامی نمائندے مرکزی سرکار کو اس صورتحال سے آگاہ نہیں کررہے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں الیکشن ، کوٹا سسٹم ، سبسڈی اور تنخواہوں پر زور دار تقریریں کی جارہی ہیں ۔ لیکن خشک سالی کے عوام پر اثرات کے بارے میں کوئی ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ۔ خشک سالی سے صرف کھیت اور باغات ہی تباہ نہیں ہورہے ۔ بلکہ پینے کے پانی کی شدید کمی بھی محسوس کی جارہی ہے ۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے بجٹ میں رقوم مشخص کرنے یا منصوبے بنانے کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ اس بنیادی مسئلے سے نپٹنے کی آج کوشش نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں ہمیں گالیاں دے کر دل کی بھڑاس نکالیں گی ۔ سیاسی رہنمائوں کو حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور گلیشروں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے جدید ٹکنالوجی کے علاوہ بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب ہی کشمیر کو ریگستان میں تبدیل ہونے اور آنے والی نسلوں کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔