جموں کشمیر میں قدرتی وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ جنگلات ، معدنیات ، پانی ،جھیل ، چشمے اور دوسرے وسائل سے زمین کا یہ حصہ بھرا پڑاہے ۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ ہوش اڑانے والی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ انسان کے ہاتھوں ایسے وسائل کا استحصال کرنے سے ان کا حجم تیزی سے کم ہورہا ہے ۔ سرکاری سروے رپورٹوں میں کہا جارہاہے کہ کشمیر بہت جلد ان وسائل سے خالی ہوگا اور حیاتیاتی عناصر کے لئے یہاں زندہ رہنا مشکل ہوگا ۔ بنیادی ضروریات کے لئے انسان محتاج ہوگا اور کسی طرح کے پھل یا اناج اگانا ممکن نہیں رہے گا ۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے پانی کی شدید قلت ہوگی اور جنگلات کا یہ علاقہ ریگستان میں بدل سکتا ہے ۔ اس حوالے سے سرکاری اور عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ لیکن قدرتی وسائل کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔ بلکہ ایسے تمام حلقے تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ سرکار اور غیر سرکاری تنظیمیں ماحول کے بچائو کے موضوع کو لے کر آئے روز سیمنار وں کا انعقاد کررہی ہیں ۔ ایسے موقعوں پر تقریریں کی جاتی ہیں ۔ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے بیداری مہم چلائی جاتی ہے ۔ اس طرح کے سیمناروں اور جلسوں میں عیاشی پر کافی روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ۔ یقین دلایا جاتا ہے کہ اب ماحول کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ بنایا جائے گا ۔ پھر اگلے سال رپورٹ سامنے آتی ہے کہ ماحول میں آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ جنگلات کا حجم کم ہوگیا ہے اور پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ماحول اور قدرتی وسائل کو بچانے کے لئے محض باتیں کی جاتی ہیں ۔ عملی طور کسی قسم کا کام نہیں کیا جاتا ہے ۔ آبادی میں اضافہ ایک حقیقت ہے ۔ اسی طرح انسان کی سرگرمیاں بڑھ جانے کی وجہ سے قدرتی وسائل میں مداخلت ہورہی ہے ۔ ان حقایق کے پیش نظر متعلقہ حلقوں کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن کوئی بھی اپنے حصے کا کام کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کا توازن بگڑ رہاہے اور حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آرہی ہے ۔
پچھلی کئی دہائیوں سے ڈل کے بچائو کو لے کر سیمناروں کا انعقاد کیا گیا ۔ پہلے عوامی سرکار کے دوران اس کے بچائو کا یقین دلایا گیا ۔ اس دوران مرکزی سرکار نے ڈل پروجیکٹ کے تحت کروڑوں روپے فراہم کئے ۔ لوگوں کو ڈل کی اہمیت سمجھانے اور اس کے تحفظ کے لئے جانکاری دی گئی ۔ لیکن سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اسی طرح سے بہت سے موضوعات کو لے کر جانکاری کیمپ منعقد کئے گئے ۔ لیکن اثر الٹا دیکھا گیا ۔ اب ڈل کے ساتھ ولر اور دوسرے جھیلوں کے ختم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ سرینگر اور اس کے مضافات میں جو ویٹ لینڈ پائی جاتی تھی اس کو رہائشی علاقوں میں بدل دیا گیا ۔ سڑکیں بنائی گئیں اور پوش کالونیاں تعمیر کی گئیں ۔ جہالت کی حد یہ ہے کہ ایسی سرگرمیوں کو ترقی سے منصوب کیا گیا اور تاثر دیا گیا کہ کشمیر تیزی سے صنعتی ترقی کی طرف بڑھ رہاہے ۔ حالانکہ ایسی سرگرمیاں اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایک بار پھر ایسے موضوعات پر سیمنار منعقد کئے جارہے ہیں ۔ جب پہلے ہی معلوم ہوا ہے کہ ایسے سیمناروں سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ایسی غیر عملی اقدامات کا تواتر سے انعقاد کیا جارہاہے ۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کوڈیم نہیں بنائے جارہے ہیں ۔ اس کے باوجود دعویٰ کیا جارہاہے کہ ہر گھر کو پانی فراہم کیا جائے گا ۔ گلیشئروں کو تحفظ دینے کے بجائے ان علاقوں میں انسانی سرگرمیوں کے علاوہ ایسے کاروبار کئے جارہے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر کاربن گیسوں کا اخراج ہورہاہے ۔ اس کے نتیجے میں گلیشئر پہلے سے زیادہ تیزی سے ختم ہورہے ہیں ۔ دریا کے کناروں سے تجاوزات ہٹائی جارہی ہیں اور کناروں کو بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جارہاہے ۔ لیکن اصل دریا کب کا ختم ہوچکا ہے ۔ اس کے اندر پانی کی سطح کم ہورہی ہے ۔ بلکہ اس سال اس میں پانی ریکارڈ سطح تک کم ہوگیا ۔ اس کے باوجود دریا کے تحفظ کے لئے تقریریں کی جارہی ہیں اور اس کے کناروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کیا جارہاہے ۔ اسی طرح دوسرے قدرتی وسائل سے مزاق کیا جارہاہے ۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ لوگوں کو قدرتی وسائل کے تحفظ سے جانکاری دی جائے اور خود بے خبری یا نظر انداز کرنے کا طریقہ اپنا یا جائے ۔ اس وجہ سے جنت بے نظیر ایک جہنم کدے میں تبدیل ہورہاہے ۔ آسمان سے بارش کے بجائے اب آگ برس رہی ہے ۔ گرمی نے لوگوں کا کچومر نکالا اور ہم محض سیمناروں سے ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایسی کوششوں سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ ابھی موقع ہے کہ اس حوالے سے عملی کام کیا جائے ۔ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جائے اور ترجیحات کی نشاندہی کی جائے ۔ باتیں کرکے ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اس سے قدرتی ماحول کے بگاڑ کاتحفظ ممکن نہیں ۔ قدرت اپنے اصولوں پر کاربند ہے اور ہم باتوں سے دل بہلارہے ہیں ۔ یہ صحیح پالیسی نہیں ہے ۔