الیکشن کمیشن نے جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے دوران ایک لاکھ نئے پودے لگانے کا ہدف مقرر کیاہے ۔ جو کہ محکمہ جنگلات کے تعاون سے پورا کیا جارہاہے ۔ چیف الیکٹورل آفیسر کے دفتر سے کہا گیا کہ جموں میں اس مہم کا باضابطہ آغاز بھلوال حلقے سے کیا گیا ۔ جہاں ایک پولنگ سنٹر پر نئے درخت لگائے گئے ۔ یہاں منعقدہ تقریب میں دوسرے کئی آفیسروں کے علاوہ چیف الیکٹورل آفیسر پی کے پولے مہمان خصوصی تھے جنہوں نے شجر کاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے اس مہم کو کامیاب بنانے کی تاکید کی ۔مرکزی سرکار کی طرف سے گرین الیکشن مہم کے تحت پولنگ مراکز پر پودے لگائے جائیں گے تاکہ ووٹروں اور تعینات عملے کو ماحول کے تحفظ کی ضرورت سے باخبر کیا جائے گا ۔ اس عوام دوست مہم کو حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے ۔ مہم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پولنگ بوتھوں پر اس طرح کی شجر کاری سے یقینی طور ایک مثبت اثر پڑسکتا ہے ۔ یاد رہے کہ کچھ عرصے پہلے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا کہ انتخابات کے دوران ایسا ساز و سامان استعمال میں لایا جاتا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بعد میں کمیشن کی طرف سے سیاسی پارٹیوں اور انتخابات سے جڑے دوسرے اداروں کو تاکید کی گئی کہ ایسی اشیا کے استعمال سے اجتناب کریں جن سے ماحول پر منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ اس دوران گرین الیکشن بینر کے تحت ایک ایسا ماڈل دیا گیا جس سے انتخابات کو ماحول دوست بنانے میں مدد ملے ۔ اس حوالے سے تمام متعلقہ افراد اور اداروں سے تعاون کرنے کی اپیل کی گئی ۔ اس اپیل کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ الیکشن مہم کے دوران پلاسٹک کے استعمال سے اجتناب کیا جارہا ہے ۔ کسی قسم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مبینہ طور کاروائی کی جاتی ہے ۔ نظر گزر رکھنے والے عملے کی ڈیوٹی میں اضافہ کرکے کسی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں ا نہیں الیکشن اتھارٹیز کو مطلع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے بہت کم جھنڈے لگاتے ہیں ۔ خاص طور سے سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر اب زیادہ جھنڈے نظر نہیں آتے ہیں ۔ جہاں کہیں جھنڈے لگائے جاتے ہیں تو کوشش رہتی ہے کہ نائلان کپڑا جھنڈے بنانے کے لئے استعمال میں نہ لایا جائے ۔ اسی طرح دوسرا میٹریل بھی ماحول دوست استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح بے حد شور و گوغا سے اجتناب کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح سے انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر کوڑا کرکٹ جمع ہونے سے نجات مل رہا ہے ۔ اس طرح کے اقدامات کی بڑے پیمانے پر تعریف کی جاتی ہے ۔
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ کل آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ انتخابات سے جڑا ہوتا ہے ۔ بڑے پیمانے پر الیکشن مہم چلائی جاتی ہے ۔ اس دوران گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کے لئے میگا فونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہر طرف جھنڈوں کا موسم ہوتا ہے ۔ اسی طرح سرکاری سطح پر سرگرمیاں نظر آتی ہیں ۔ ووٹر لسٹ اور ووٹر سیلپوں کی تیاری میں کاغذ کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وٹر بوٹلز ، رسوئی گیس اور آلودگی سے بھرے دوسرے آلات کا استعمال ہوتا ہے ۔ سیکیورٹی فورسز پر ایسی بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ایسا انتخابات کو صاف وشفاف بنانے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس وجہ سے عوام اور ماحول پر جو مضر اثرات پڑتے ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ الیکٹرانک مشینوں نے بہت حد تک ماحولیات کو بچانے میں مدد کی ۔ روا یتی انتخابات سے ہر چہار سو کوڈا کرکٹ کے جو ڈھیر نظر آتے تھے ان سے ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے سخت خدشات پائے جاتے تھے ۔ اس پر کچھ تو قابو پایا گیا ۔ تاہم ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے ۔ ماحول دوست طریقہ کار اختیار کیا جائے تو نہ صرف آس پاس کو بلکہ لوگوں کی صحت کو بھی مضر اثرات سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ یہ بہت مشکل اقدام ہے ۔ جمہوری عمل کی اپنی اہمیت ۔ اس کو بچانا بہت ضروری ہے ۔ اس کو اپنے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس دوران انسانی جانوں کا تحفظ بہت ضروری ہے ۔ ڈیجیٹل انڈیا کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ انتخابات ڈیجیٹل موڈ پر لائے جائیں ۔ سوشل میڈیا کی مدد سے الیکشن مہم کو انسان دوست اور ماحول دوست بنایا جاسکتا ہے ۔ ایسا کرنے سے انتخابات کو انسانی جانوں پر پڑنے والے مضر اثرات سے بچایا جاسکتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ذریعے سے بے جا اخراجات کو بھی بچایا جاسکتا ہے ۔ کئی ذہین اور بہتر لوگ الیکشنوں میں اس وجہ سے حصہ لینے سے دور رہتے ہیں کہ ان کے پاس اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔ گرین الیکشن مہم کامیاب رہی تو اخراجات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ووٹروں کو اس ضرورت سے باخبر کیا جائے ۔
