کشمیر میں ہوئے انتخابات کے نتائج منگل کو سامنے آئے ۔ صبح آٹھ بجے ووٹ شماری شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ این سی کے ساتھ کانگریس
کے امیدوار آگے بڑھ رہے ہیں ۔ یہ رجحان برابر جاری رہا تو دوپہر کو مکمل تصویر سامنے آئی ۔ این سی اور کانگریس کے اتحاد نے اندازوں سے بڑھ کر جیت حاصل کی اور حکومت بنانے کے لئے تگ و دو شروع کی ۔ حیران کن طور پر پی ڈی پی کو الیکشن میں سخت ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگرچہ پہلے ہی اندازہ لگایا گیا تھا کہ پی ڈی پی اس بار کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ۔ تاہم اس طرح سے اس کی بازی الٹنے کا اندازہ نہیں لگایا گیا تھا ۔ بی جے پی توقع سے کم نشستیں حاصل کرسکی ۔ پارٹی حکومت بنانے کا دعویٰ کررہی تھی ۔ بلکہ اس کے متوقع
حمایتی بھی بری طرح سے الیکشن ہار گئے ۔ اس طرح سے این سی اور کانگریس اتحاد بڑی جیت درج کرنے میں کامیاب رہا ۔ جو بڑے بڑے برج الٹ گئے ان میں این سی کے چودھری رمضان ، اپنی پارٹی کے الطاف بخاری ، پی ڈی پی کی التجا مفتی اور رحمٰن ویری ، پی سی کے عمران انصاری ، کانگریس کے وکاس رسول وانی اور تارا چند ، بی جے پی کے رویندر رینا شامل ہیں ۔ اس طرح سے ووٹروں نے اپنے ووٹ سے کئی برج الٹ دئے اور بیشتر سیٹوں پر حیران کن نتائج سامنے آئے ۔
این سی نے ایک طویل عرصے کے بعد اسمبلی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ۔ عمر عبداللہ نے خود اعتراف کیا کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ آج پہلی بار انہوں نے انتخابات میں نمایاں کارکردگی دکھائی ۔ عمر دو نشستوں سے الیکشن لڑرہے تھے اور دونوں جگہوں سے کامیابی حاصل کی ۔ بڈگام اور گاندربل میں انہوں نے ووٹوں کے بڑے فرق سے انتخابات جیت لئے ۔ اس کے علاوہ این سی نے سرینگر اور بڈگام ضلعوں سے انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی ۔ اننت ناگ سے پہلی بار پی ڈی پی سے تمام سیٹیں چھین لی گئیں ۔ پی ڈی پی محض تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرپائی ۔ اس پارٹی کے تمام اہم لیڈر الیکشن ہار گئے ۔ اسی طرح یوسف تاریگامی بھی اپنی نشست محفوط کرنے میں کامیاب رہے ۔ سرینگر سے کانگریس سربراہ طاریق قرہ بڑے مارجن سے الیکشن جیت گئے ۔ تاریگامی اور قرہ کو این سی کی حمایت حاصل تھی اور دونوں اس حمایت سے الیکشن جیت سکے ۔ کئی نشستوں پر معرکہ سخت رہا اور بی جے پی سے انڈیا بلاک کئی سیٹیں چھیننے میں ناکام رہا ۔ تاہم انڈیا بلاک مجموعی طور سخت مقابلے کے بعد اپنی جیت درج کرنے کا اہل ہوا ہے ۔ اب حکومت سازی کا مرحلہ طے کرنا باقی ہے ۔ فاروق عبداللہ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کے بجائے عمر عبداللہ جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ ہونگے ۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ این سی کانگریس اتحاد زیادہ دیر آگے نہیں بڑھ پایا ہے ۔ آج اگرچہ اتحاد ٹوٹنے کے بہت کم امکانات ہیں ۔ تاہم اتحاد کا کئی مدعوں پر اختلاف یقینی ہے ۔ کانگریس کی کوشش رہتی ہے کہ اپنے اتحادیوں کو زیادہ طاقت ور بننے سے روکا جائے ۔ خاص طور سے جموں سے اتحاد میں شامل لیڈر ہر گز نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے ووٹر اپنے نمائندوں کو کمزور پائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے امیدوار اختلافات کو ہوا دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ این سی کانگریس اتحاد کی حکومت کے دوران سرکاری دفتروں میں رشوت کا بول بالا رہاہے ۔ ایسا طریقہ کار موجود رہا تو یہ این سی کی آخری کامیابی ثابت ہوگی ۔ نئی سرکار کے لئے یہ بہت ہی کٹھن مرحلہ ہوگا ۔ خاص طور سے دفعہ 370 کے حوالے سے لوگوں سے جو وعدے کئے گئے ان کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا ۔ سیاسی لیڈروں کے علاوہ عوام بھی جانتے ہیں کہ دفعہ 370 کو واپس لانا فی الحال ممکن نہیں ہے ۔ لیکن اس مدعے کو زندہ رکھنے کے لئے جو کوششیں کرنا ہیں این سی ایسی کوششیں کرپائے گی کہ نہیں یہ دیکھنا باقی ہے ۔ پہلا مرحلہ اسٹیٹ ہوڈ واپس کرنے کا مرحلہ ہے ۔ اس حوالے سے جو بھی پیش رفت ہوگی اس کا پہلا اور براہ راست فائدہ این سی کانگریس اتحاد کو ہی ملے گا ۔ اسی طرح جیلوں میں بند قیدیوں کے حوالے سے اہم فیصلے لینا ہونگے ۔ اس معاملے میں این سی کا ریکارڈ بہتر نہیں ہے ۔ بلکہ لوگ اس طرح کی کاروائیوں میں این سی کو ہی مجرم سمجھتے ہیں ۔ ان الزامات کے باوجود لوگوں نے بڑے پیمانے پر این سی کو ووٹ دئے ۔ لوگوں نے این سی کے انتخابی منشور پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے حق میں اپنا ووٹ دیا ۔ پچھلے کچھ سالوں سے واضح ہوا ہے کہ بی جے پی ایسی واحد جماعت ہے جو اپنے انتخابی منشور کو لے کر ہی حکومت چلاتی ہے ۔ اس وجہ سے بی جے پی کو ایک دیانت دار جماعت سمجھا جاتا ہے ۔ کیا این سی اور کانگریس عوام میں اس طرح کی شبیہ بنانے میں کامیاب ہوگی نئی حکومت ان کے لئے اس حوالے سے بڑا امتحان ہوگی ۔ اسی طرح بے روزگاری کا مدعا بھی نئی سرکار کے لئے لیٹمس ٹیسٹ ہوگا ۔ اقتدار ان کے لئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہوگا ۔
