نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بدھ کو بطور وزیراعلیٰ حلف لے لیا ۔ ان کے ساتھ پانچ کابینہ درجے کے وزرا نے بھی حلف لے لیاجن میں ایک بطور نائب وزیراعلیٰ کام کرے گا ۔حلف لینے والے وزیروں میں جاوید رعنا ، سریندر چودھری اور ستیش شرما جموں سے جبکہ کشمیر سے جاوید ڈار کے علاوہ سکینہ ایتو کو کابینہ وزیر کے طور حلف دلایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق چودھری کو نائب وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے ۔ اس طرح سے پانچ سال کے وقفے کے بعد جموں کشمیر کو عوامی حکومت مل گئی ۔ عمر عبداللہ جموں کشمیر یوٹی کے پہلے وزیراعلیٰ کے طور اپنا نام درج کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ بحیثیت وزیراعلیٰ یہ ان کی دوسری حلف برداری ہے ۔ اس سے پہلے آپ 2009 میں وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے ۔ آج ان کے وزیراعلیٰ بننے کے موقعے پرایس کے آئی سی سی میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ حلف برداری کی تقریب میں سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ دہلی سے انڈیا بلاک کے کئی بڑے لیڈر بھی شامل ہوئے ۔ ان میں کانگریس کے راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی ، ملک ارجن کھرگے ، سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو ، بائیں بازو کے پریکاش کارت اور ڈی راجا ، ڈی ایم کے لیڈرکانی موذہی ، اور این سی پی کے سے وابستہ سپریا سولے قابل ذکر ہیں ۔ کانگریس نے وزارت کا حصہ بننے سے انکار کیا ۔ تاہم اس کے اسمبلی میں موجود ممبران این سی سرکار کی حمایت جاری رکھیں گے ۔ کانگریس لیجسلیٹیو پارٹی کے سربراہ جی اے میرنے انکشاف کیا کہ وزارتی کونسل میں شامل نہ ہوکر ان کی پارٹی کے کسی بھی ممبر نے ایل جی کے سامنے حاضر ہوکر حلف نہیں لیا ۔ اس طرح سے انہوں نے اس بات پر احتجاج درج کیا کہ انتخابات کے فوراََ بعد جموں کشمیر کو اسٹیٹ ہڈ واپس نہیں کیا گیا ۔ دونوں جماعتوں نے حالیہ انتخابات مشترکہ طور لڑے تھے ۔ ان انتخابات میں کانگریس کو سخت حزیمت اٹھانا پڑی اور اس کے صرف چھ امیدوار کامیاب ہوکر اسمبلی تک پہنچے ۔ اس کے بجائے این سی کے امیدواروں نے نشستوں پر جیت درج کی ۔ اس طرح سے این سی کو 90 نشستوں میں سے 42 پر کامیابی حاصل ہوئی اور پارٹی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کے اہل بن گئی ۔ اس کے باوجود این سی نے انڈیا بلاک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ۔
جموں کشمیر میں نئی سرکار بننے کے فوری بعد وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعلیٰ کو اپنا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد پیش کی ۔ اپنے سوشل میڈیا کاونٹ پر ایک تویٹ میں انہوں نے عمر عبداللہ کے بحیثیت وزیراعلیٰ کام سنبھالنے پر خوشی کا اظہار کیا ۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ طویل مرکزی راج کے بعد جموں کشمیر کو اپنی سرکار مل گئی ۔ عمر عبداللہ نے اس موقعہ پر میڈیا کے سامنے بولتے ہوئے اقرار کیا کہ یوٹی کا وزیراعلیٰ ہونا ایک مشکل کام ہے ۔ تاہم انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ یوٹی کے درجے کو ختم کرکے بہت جلد جموں کشمیر کو ایک ریاست بنایا جائے گا ۔ عمر عبداللہ حلف برداری کی تقریب میں حد سے زیادہ خوش اور مطمئن نظر آئے ۔ اگرچہ کئی حلقوں نے اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ عوامی سرکار لوگوں کے کوئی مسائل حل کرنے میں کامیاب رہے گی ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقعے پر جبکہ بیشتر اختیارات یوٹی کے لیفٹنٹ گورنر کے پاس ہیں اور وزیراعلیٰ کے اختیارات کو پہلے ہی کم و بیش ختم کیا گیا ہے وہ کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں گے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وزارت داخلہ نے پچھلے پانچ سالوں کے علاوہ کشمیر میں ہورہے انتخابات کے دوران کئی ایسے نوٹیفکیشن اجرا کئے جن سے وزیراعلیٰ کے بیشتر اختیارات کم کرکے ایسے اختیارات ایل جی کو سونپ دئے گئے ۔ اس طرح سے انتظامیہ کا بیشتر کام ایل جی کے پاس رکھا گیا ۔ اس دوران یہ بات بڑی اہم ہے کہ اسمبلی کے لئے ہوئے حالیہ انتخابات کے لئے این سی کا منشور عمر عبداللہ نے از خود جاری کیا ۔ منشور میں لوگوں سے جو وعدے کئے گئے ان میں دو سو یونٹ مفت بجلی کے علاوہ مفت اضافی رسوئی گیس ، راشن اور ایک لاکھ نوکریاں شامل ہیں ۔ اپنے اس الیکشن منشور پر عمل کرنا جب ہی ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ کے پاس اختیارات ہوں اور ایسے وسائل موجود ہوں جن کو استعمال میں لاکر لوگوں کو راحت پہنچائی جاسکے ۔ لیکن وزیراعلیٰ کے لئے فی الوقت ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس سے کئی حلقے اندازہ لگارہے ہیں کہ موجودہ سرکار بہت حد تک ناکام سرکار ثابت ہوگی ۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ تاریک کے سب سے کمزور وزیراعلیٰ ہونگے اور انہیں جو بڑے کام انجام دینے ہیں موجودہ پوزیشن میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس وجہ سے ایسے حلقے سخت مایوسی کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس کے باوجود عوام کئی طرح کی خوش فہمیوں کا شکار ہیں اور وزیراعلیٰ سے بہتر کام کاج کی امیدکرتے ہیں ۔
