کانگریس کے باغی لیڈر اور ڈی پی اے پی کے بانی سربراہ غلام نبی آزاد نے پچھلے ہفتے الیکشن مہم میں شریک ہونے کے بجائے چھٹی لینے کا اعلان کیا ۔ اس حوالے سے پارٹی ترجمان نے بتایا کہ ناسازگار صحت کی وجہ سے آپ پارٹی امیدواروں کے لئے کوئی مہم چلانے سے قاصر ہیں ۔ ان کے اس اعلان سے آزاد کے محبوں میں سخت مایوسی پھیل گئی ۔ یہاں تک کہ ان کی پارٹی کی طرف سے نامزد کئے گئے امیدواروں نے اپنی نامزدگی کے فارم واپس لئے ۔ جب چنائو مہم نہیں اور سب سے بڑے موثر سمجھے جانے والے لیڈر منظر عام سے ہی غائب ہیں تو الیکشن لڑنے کا کوئی مطلب نہیں ۔ اس طرح سے جنوبی کشمیر میں پارٹی امیدواروں نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ اب کہا جاتا ہے کہ آزاد واپس صحت یاب ہورہے ہیں ۔ وہ الیکشن مہم میں حصہ لیں گے کہ نہیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا ۔ تاہم جو صورتحال بننی تھی بن گئی ۔ اب آزاد کی پارٹی کے امیدوار ان کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں موجود نہیں ۔ آزاد کا جنوبی کشمیر اور چناب ویلی میں خاصا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ آسانی سے الیکشن جیت جاتے ۔ تاہم اپنی نئی سیاسی اننگز شروع ضرور کرپاتے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ شروعات میں ہی لڑکھڑا گئے اور کوئی اسکور بنانے میں ناکام رہے ۔ آزاد نے اپنی قیادت میں اس وقت نئی سیاسی پارٹی قائم کی تھی جب کانگریس کے درجنوں معروف لیڈروں کے ساتھ مل کر انہوں نے بغاوت کی تھی اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ۔ اپنی نئی پارٹی بنانے کے بعد خیال تھا کہ آپ اپنے علاقے میں ووٹ بینک بنانے اور دوسروں سے سبقت لے جانے میں کامیاب ہونگے ۔ لیکن وہ بری طرح ناکام رہے ۔ پہلے ان کی پارٹی کے جنرل سیکریٹری نے علاحدگی اختیار کرکے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بعد ان کے درجنوں کارکن پارٹی چھوڑ کر دوسروں کے حلقے میں شامل ہوگئے ۔ اس طرح سے پارٹی مکمل طور بکھرائو کا شکار ہوگئی اور آزاد نے بھی پسپائی اختیار کرکے الیکشن مہم سے الگ ہونے کا اعلان کیا ۔
غلام نبی آزاد نے بہت حد تک اپنی پسپائی کا اعلان پچھلے پارلیمانی انتخابات کے دوران ہی کیا تھا ۔ انہوں نے اسی وقت میدان چھوڑ دیا تھا ۔ بہت سے حلقے اندازہ لگاچکے تھے کہ ان کی سیاسی موت کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اس دوران یہ افواہیں بھی سامنیا ٓئیں کہ آزاد واپس کانگریس میں شامل ہورہے ہیں ۔ اسمبلی انتخابات سے پہلے میڈیا میں یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ ان کی گھر واپسی عنقریب ہوگی ۔ بعد میں جب کانگریس کی ٹاپ لیڈر شپ این سی رہنمائوں سے ملنے سرینگر آگئی اور دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی تو آزاد اس کی تاب نہ لاکر ٹوٹ گئے ۔ ان کا خیال تھا کہ این سی تنہا الیکشن لڑے گی اور کسی الائنس میں شامل نہیں ہوگی ۔ سیاسی پنڈت بھی اندازہ لگارہے تھے کہ دو پارلیمانی نشستیں جیتنے کے بعد این سی کسی کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں کرے گی ۔ یہ الائنس نہ بنی ہوتی تو ممکن تھا کہ کانگریس میں ان کی واپسی کی کوششیں کامیاب ہوجاتیں ۔ لیکن کانگریس لیڈروں نے انہیں گھاس نہیں ڈالی ۔ بلکہ ان کے ساتھ ملے دوسرے کارکنوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ۔ کسی ایسے کارکن کو منڈیٹ نہیں دیا گیا ۔ بلکہ این سی نے کئی سیٹوں پر اپنے مفادات چھوڑدئے ۔ یہاں تک کہ کانگریس نے فرینڈلی مقابلے کے لئے بھی حامی بھرلی۔ اس طرح سے آزاد کی واپسی ناممکن ہوگئی ۔ اس دوران آزاد کے لئے حیران کن طور وزیراعظم مودی نے بھی آنکھیں پھیر لیں ۔ کانگریس سے بغاوت اور راجیہ سبھا کی رکنیت سے ہاتھ دھونے کے دوران مودی ان کی اتنی تعریفیں کررہے تھے کہ خیال گزرا آزاد بی جے پی میں شامل ہونگے ۔ مودی اپنے سے سینئر بی جے پی رہنمائوں کو خاطر میں لانے کے روا دار نہیں ۔ انہوں نے ان لیڈروں کی گٹھری بناکر انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دیا ۔ یہاں تک کہ کسی کو اب ان کا نام بھی یاد نہیں ۔ رواں اسمبلی انتخابات کا حال یہ ہے کہ کئی نشستوں پر متوقع امیدواروں کو پوچھا بھی نہیں ۔ سیاسی طور بڑے فعال ورکروں کے چہرے کہیں نظر نہیں آتے ۔ ایک طرف بی جے پی دعویٰ کررہی ہے کہ اپنے بل بوتے پر سرکار بنائے گی ۔ دوسری طرف بہت سی نشستوں کو خالی چھوڑ دیا ۔ اس تناظر میں یہ توقع رکھنا کی دوسروں کو کوئی مدد کرے گی مشکل ہے ۔ تاہم آزاد کا اچانک الیکشن میدان چھوڑنا سب کے لئے حیران کن ہے ۔ اتنا طویل عرصہ سیاست سے جڑے رہنے کے بعد لڑائی سے پہلے ہار تسلیم کرنا غیر متوقع ہے ۔ یہاں تو ایسے امیدوار میدان میں ہیں جن کی نہ صرف ضمانت ضبط ہوگی بلکہ سو ڈیڑھ سو سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا بھی مشکل ہے ۔ اس کے باوجود وہ میدان میں ڈٹے ہیں اور این سی اور کانگریس کا مقابلے کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ ان کے مقابلے میں آزاد تو بڑے بہادر نظر آرہے تھے ۔ لگتا ہے کہ اب ان میں سیاسی جنگ لڑنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے ۔ ان کی اس ہار سے یقینی طور کانگریس کو فائدہ ملے گا اور آگے بڑھنے کا آسان راستہ وا ہوگا ۔
