تحریر: صارم اقبال
ہماری وادی کشمیر میں اگر چہ نامور ہستیوں نے جنم لے کر یہاں زندگی کے ہر شعبے میں اچھی خاصی شہرت حاصل کر کے آسمان کی بلندیوں کو چھوا تو وہیں یہاں کے علم و ادب کے میدان میں بھی بیشتر اضافہ ہوا۔ہمارے یہاں اگرچہ کلاسیکی موسیقی کے ساتھ شعرو شاعری میں نمایاں شخصیتوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہی شعرو شاعری کے میدان میں بھی نمایاں شخصیتوں نے اپنا لوہا منوایا۔ان ہی نامور ہستیوں میں میرے ذہن میں وہ دو نام آتے ہیں جن کی شہرت ہماری وادی میں کافی عرصے سے جاری ہے جن کا نام وادی کے مقیم لوگوں کے دل و دماغ میں بس چکا ہے جی ہاں ساگر نزیر صاحب جو کہ ضلع بارہمولہ کے ژکر پٹن سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ وادی کشمیر کے مایہ ناز گلوکار،فنکار،اداکاراعجاز راہ صاحب ہیں جو کہ سرینگر کے ایچ ایم ٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ غلام محمد راہ کے گھر میں تولد ہوئے اعجاز راہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں آ پ کا شمار ملک کے مایہ ناز فنکاروں،گلوکاروں،اداکاروں میں سر فہرست ہے جس نے ہر وقت کشمیری موسیقی کے ساتھ ہی ساتھ بالی ووڈ میں بطور اداکار کام کر کے اپنا نام ملک کے جانے مانے ستاروں میں شامل کیا۔ اعجاز راہ صاحب نے اپنے فن سے وادی کشمیر میں بلکہ پورے ملک کے ہر کونے میں اپنی پہنچان بنائی۔جس وجہ سے آپ کو ”کشمیر کے مکیش ” کے نام سے بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔جہاں تک اعجاز راہ صاحب کا تعلق ہے آپ نے وادی کشمیر کے مادری زبان کے مختلف شعراء کے کلام گا کر ایک خاص مقام حاصل کیا۔اعجاز راہ صاحب کی مقبولیت کا سبب اس کی آواز کی مٹھاس کے ساتھ ہی ساتھ ایک کامیاب فنکار کی ذہانت کار فرما ہے۔آپ نے اپنے فن کو بروئے کار لا کر عوام کے سامنے وہ گیت لائے جو ہماری وادی کے احساسات و جذبات،میراث کی ترجمانی کرتے تھے۔اعجاز راہ صاحب کی مقبولیت بحثیت ایک گلوکار موسیقار کی یہ بھی نمایاں نظر آرہی ہے کہ آپ نے ہماری وادی کشمیر کے ایک نوجوان شاعر بلکہ یوں اگر کہا جائے کہ آثار قدیمہ کو ظاہر کرنے والے شاعر اور ساہتہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر ساگر نزیر صاحب کا کلام ہے جس کلام نے اعجاز صاحب کو کافی حد تک عوام میں مقبول کیا۔ یہ بات غور ظلب ہے کہ ساغر اور راہ دونوں شخصیتوں کا ملن ہمارے لیے باعث فخر ٹھہرا۔دونوں شخصیتوں کی خدمت موجودہ دور کے نوجوانوں کے لئے فن شعری و فن موسیقی کے میدان کی طرف راغب کرنے کا آلہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ساگر نزیر صاحب کی شاعری نہ صرف مقبول عام ہوئی بلکہ اعجاز راہ صاحب نے اپنا نام بھی بحثیت ایک گلوکار وادی کے مایہ ناز فنکاروں میں پیش پیش رہا۔اعجاز راہ صاحب نے جوبھی غزل ساگر نذیر صاحب کے قلم سے لکھی گئی عوام کے سامنے لائی وہ ساری کی ساری ہ صرف مقبول عام ہوئی بلکہ سوشل میڈیا کے رابظے سائٹس میں ٹاپ ریٹنگ اسکیل میں رہی۔ساغر نزیر صاحب کی بیشتر شاعری چونکہ ہماری وادی کشمیر کی میراث کی ترجمان کرتی رہی ہیں جس کی بناء پر ادبی حلقوں میں ساگر نزیر صاحب و اعجاز راہ صاحب کو کافی حوصلہ افزائی ملی۔ دونوں شاعر،وگلوکار،موسیقار نے کو اپنے فن و فنکاری سے عوام میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔اعجاز راہ صاحب اور ساگر نزیر صاحب کی ملاقات دوردرشن کیندر سرینگراور ریڈیو کشمیر کی وسعادت سے ہوئی اور آگے چل کر یہ ملاقات ہمارے لئے ادب و موسیقی کے میدان میں ایک دو ستاروں کا ملن ٹھہرا۔ دونوں اشخاص نے دور درشن و ریڈیو کشمیر کا سہارا لے کر،شاعری و موسیقی کے ذریعے ہر گھر دستک دی اور کو مزید نئی پود کو اپنی وراثت سے جوڑے رکھا۔
اعجاز راہ صاحب اور ساغر نزیر صاحب کی جوڑی وادی کشمیر میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔شاعر اور گلوکار کا یہ ملن ہماری وادی کشمیر میں کافی گہرے نقوش چھوڑ رہیے ہیں۔اعجاز راہ صاحب نے جو غزل یا نظم ساغر صاحب کی اپنے فن اور آواز کی مٹھاس سے گائی وہ ہر ایک ایک سے بڑ ھ کر مشہور ہوئی۔اعجاز راہ صاحب نے ساغر کے قلم سے بیشتر غزلیں،نظمیں گائی جو ایک سے بڑھ کر ایک عوام میں مقبول ہوئی اور شہرت حاصل کر چکی۔ان کا ایک گایا ہوا ”بانگہ درایاکھ ژانگہ ما آوکھ۔وائے ژہ پیاران موج چھے۔اتنی مقبول ہوئی کہ جب پہلی بار اعجاز راہ صاحب نے عوام کے سامنے یہ گانا لایا توتو وادی کے اطراف و اکناف سے ریڈیو کشمیر سرینگر یا دور درشن سے اس گانے کی فرمائشیں آنے لگی۔اس گانے نے پورے سننے والوں کو آنسوؤں کے سیلاب میں ڈوبو یا کیونکہ ساغر نزیر نے اس گیت میں ایک وقت کی مکمل عکس بندی کی تھی جو کہ ان ماؤں کے احساسات کے ساتھ جڑی ہوئی تھی جن کے اپنے افرا تفری یا حادثات کے شکار ہوئے تھے۔اس کے علاؤہ اعجاز راہ صاحب نے ساغر کی ایک اور نظم ” یلہ سونتہ چھ بارش شرانہ وسان۔۔مہ چون محبت یاد پیوان۔ عوام میں کافی مقبول ہوئی کیونکہ اس نظم میں کشمیر کی مسوسم بہار سے لے کر موسم سرما تک رنگینی پہلو کوبیان کیا ہے۔مزید اعجاز راہ صاحب نے ساغر صاحب کی ”ونہ راچھ کرتھ میراثس چھا۔۔تم سادھو منش تم گامکھ لوکھ۔جو عوام میں کافی حد تک مقبول ہوا۔جیسا کہ پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ساغر صاحب نے وادی کشمیر کی وہ میراث اپنی شاعری کے سادہ لفظوں میں بیان کی جو یہاں کی مقامی آبادی کو دل کو چھو گئی اور جب اعجاز صاحب نے اسی شاعری کو اپنے فن کے سانچے میں ڈالا تو عوام نے آنکھیں بند کر کے نہ صرف قبول کیا بلکہ دونوں شاعر اور گلوکار کو داد تحسین پیش کیا اور خاصکر ادبی تنظیموں نے انہیں مزید حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ اعجاز صاحب کی آواز میں،،ژہ لول بری بری فرس بہ پانس،، عوام میں کافی ذیادہ شہرت حاصل کی۔ اعجاز راہ صاحب نے واقعی وادی کشمیر کی ثقافت،آپسی بھائی چارے صبرو ایثار کی ایسے گانے لوگوں کے سامنے لائے جو تا دیر تک وادی کی منظر کشی کریں گے۔وادی کشمر کے باقی گلوکاروں کی طرح اعجاز راہ صاحب نے ملک اور ملک سے باہر یہ ثابت کر دیا کہ وادی میں فنکاروں کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ دنیا کے فنکاروں کی طرح اپنے فن کے پختگی میں کسی سے کم نہیں۔
چونکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح سے فلمی دنیا و سنگیت و شاعری کی دنیا میں بہت سارے جوڑیوں کا ملن تواریخی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ جیسے ساجد علی واجد کی جوڑی،نے دنیا میں تہلکہ مچایا اسی طرح ہماری اس وادی میں عوام کی امیدوں پر اترنے والی جوڑی اعجاز راہ اور ساغر صاحب کی جوڑی موسیقی اور شاعری میں اب تک ہر لحاظ سے کامیاب ترین جوڑی نظر آتی ہیں اور اس جوڑی کا سلسلہ مستقبل میں کامیابی کے منزلوں کی طرف رواں دواں نظر آرہی ہے۔دونوں شاعر و گلوکار نے صرف عوام کو گلوگار ہونے کا احساس دلایا بلکہ دونوں نے غیر شاعر و گلوکار کو فن کی عظمت کا احساس دلایا۔اعجاز راہ صاحب نے وادی کے اطراف و اکناف سے تعلق رکھنے والے تمام گلوکاروں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھائی۔ساغر صاحب نے دوسری طرف ان شعرائے کرام کی بھی حوصلہ افزائی کی جو گمنام تھے اور جن کا تعلق دور دراز علاقوں سے تھا۔ ساغر کلچرل فورم ژکر پٹن کے بینر تلے ان گمنام شاعروں کے شعری مجموعے کی رسم رونمائی انجام دی جو ہماری وادی کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔دونوں شخصیات نے مل کرفن شعری اور موسیقی کو ایک نیا جامہ پہنا کر ایک نئی تواریخ رقم کی جو ہر لحاظ سے منفرد نظر آتی ہے۔