جرائم کے واقعات میں اضافہ حساس حلقوں میں اس بات پر سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ جرائم کے واقعات کا گراف مسلسل بڑھتا جارہا ہے ۔ پچھلے کئی مہینوں کے دوران اس طرح کے جو واقعات پیش آئے ان سے عوامی حلقوں میں سخت لرزہ طاری ہوگیا ہے ۔ ان واقعات سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہورہاہے کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ ایسے واقعات جموں کشمیر کے ہر علاقے میں سامنے آرہے ہیں ۔ خاص طور سے گھریلو خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات پہلے سینمائوں کے اندر دکھائی جانی والی فلموں کی زینت بنتے تھے اور ان کو دیکھ کر کسی بی کشمیری شہری کے لئے ایسے واقعات پر بھروسہ کرنا مشکل تھا ۔ لیکن اب اس طرح کے واقعات ہمارے آس پاس پیش رہے ہیں ۔ سرکاری اور دوسرے غیر سرکاری ادارے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے کئی طرح کے کام کررہے ہیں ۔ عورتوں کو سماج کا ایک معزز حصہ ماننے کے جتن کئے جاتے ہیں ۔ جانکاری کیمپوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ طلبہ کو کم عمری میں ہی اس طرح کے جرائم کے اثرات اور ان کو روکنے پر مائل کئے جانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود ایسے واقعات میں کمی آنے کے بجائے ان میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ بیٹے کے ہاتھوں باپ اور بیوی کے ہاتھوں خاوند کے قتل کے واقعات جگہ جگہ پیش آتے ہیں ۔ اسی طرح چوری چکاری کے حادثات کے علاوہ وارث کے معاملات پر قتل وغارت کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ ان واقعات میں اضافے کی وجہ سے سخت تشویش ناک صورتحال پائی جاتی ہے ۔
سماج میں بندوق کی آمد بذات خود لاقانونیت کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔ کسی بھی معاشرے کے اندر گن کلچر کا پھیلائو اس معاشرے کے لئے اندرونی کھوکھلے پن کا باعث ہوتا ہے ۔ کشمیر میں بندوق متعارف ہونے کے بعد ایسے واقعات کو ٹلنا ممکن نہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے اس طرح کے واقعات کہیں درج نہیں ہوتے تھے اور لوگ خوف کی وجہ سے ایسے واقعات پر منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے ۔ اب آہستہ آہستہ جرائم کے واقعات سے متعلق انفارمیشن پولیس کو دی جاتی ہے جہاں ایسے واقعات کے خلاف کیس درج کئے جاتے ہیں ۔ سرینگر پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ لوگ ایسے واقعات کو درج کرنے کے لئے تھانوں میں آکر کسی درج کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کی مدد سے بھی اس طرح کے واقعات کو سامنے لایا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگ اندازہ لگارہے ہیں کہ ہمارے سماج میں برائیوں کے ساتھ ساتھ جرائم کا پھیلائو بڑی تیزی سے ہورہاہے ۔ سامنے آئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کے خلاف زیادتیوں کے واقعات میں چارفیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے ۔ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے 278 واقعات پچھلے ایک سال کے دوران پیش آئے ۔ ایسے واقعات میں ملوث ملزموں کی شناخت کے بعد پتہ چلا کہ زیادہ تر یا تو رشہ دار اور قریبی ہمسایہ ہیں یا اساتذہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے گھر آتے رہتے افراد سے احتیاط بھرتنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوجود جرائم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ ایک زمانے میں یہاں کسی شخص کے پاس چھری کا موجود ہونا قیاس سے باہر تھا ۔ بازار میں تلاش کے باوجود چھری کا ملنا ممکن نہ تھا ۔ لیکن اب لوگ آسانی سے ایسی چیزیں حاصل کررہے ہیں ۔ بلکہ آئے دن چھری گھونپنے کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ اسی طرح سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ پایا جاتا ہے ۔ بحثیت مجموعی پورے معاشرے میں جرائم نے سرایت کرلی ہے ۔ پرتشدد واقعات اور جرائم میں اس طرح کا ضافہ سخت تشویش کا باعث بن رہاہے ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کشمیری معاشرے میں ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہے ۔ ایک ایسے معاشرے کے اندر جہاں تیس پنتیس سال تک لاقانونیت رہی ہو ایک ساتھ جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں ہے ۔ ایسے معاشروں کے اندر ا سطرح کے واقعات ضرور پھیل جاتے ہیں ۔ تین دہائیوں تک انارکی رہنے کے باوجود یہاں کے لوگ امید نہیں کررہے تھے کہ ان کے معاشرے کے اندر اس طرح کے واقعات پیش آئیں گے جو اب یہ جگہ جگہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل اور اپنے آشنا کے ساتھ مل کر بیوی کے ہاتھوں خاوند کی ہلاکت ایسے واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن رہے ہیں ۔ ان واقعات کی وجہ سے لوگوں میں حد درجے کا خوف پایا جاتا ہے ۔ خوف وہراس کا ماحول یہاں پہلے ہی پایا جاتا ہے ۔ لیکن اب حالیہ تشدد اور جرائم کے واقعات نے خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ اس دوران خوف کی وجہ سے ذہنی تنائو میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی ان واقعات کو روکنے کے لئے کوئی منظم کوششیں نہیں ہورہی ہیں ۔ ہر کسی کی خواہش ہے کہ سرکار ایسے واقعات کو روکنے کے اقدامات کرے ۔ سماج کے اندر ایسے واقعات کو روکنے پر پہلے روک لگائی گئی نہ اب کوئی آواز اٹھائی جارہی ہے ۔ اس طرح کی خاموشی حیران کن ہے ۔
