گزشتہ ایک دہائی سے جہاں ملک کے مختلف علاقوں میں موسمی صورتحال میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے وہیں جموں و کشمیر بھی اس موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، جموں و کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ناسازگار موسمی صورتحال کی وجہ سے نا قابلِ تلافی نقصان ہوا۔ آج ہم اسی جموں و کشمیر کے ایک انتہائی پسماندہ اور سرحدی ضلع پونچھ کی بات کریں گے، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے لوگ ہر دور میں کسی نہ کسی قدرتی آزمائش کا شکار رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومتی سطح پریہاں کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ ہی سوتیلا سلوک رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل کے اس ترقیاتی دور میں بھی یہ علاقہ اور یہاں کے لوگ ہمیشہ ہی عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔ یہاں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ سطحِ افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے اور زیادہ تر لوگوں کی روزگار کھیتی باڑی پر ہی منحصر ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے بے وقت اور موسلادھار بارشوں کی وجہ سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی کھیتی باڑی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ زندگی کا ہر ایک شعبہ ہی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ لگاتار بارشوں کی وجہ سے جہاں پونچھ اور اس کے مضافات میں روزگار، تعلیم، صحت، ذرائع آمدورفت اور دیگر شعبہ جات بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہیں ان سالوں میں خراب موسم کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانوں کا بھی نا قابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔
خطہء پیر پنجال کو وادیِ کشمیر کے ساتھ جوڑنے والی تاریخی مغل شاہراہ کی ہی اگر بات کریں تو گزشتہ کچھ سالوں سے اس سڑک پر سفر کرنے والے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ملازمین، طلبا اور خاص کر مریضوں کو بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہر آے روز جگہ جگہ پسیاں گرنے کی وجہ سے شاہراہ بند ہو جاتی ہے اور مسافر درماندہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، موسم کی خرابی کی وجہ سے اس تاریخی شاہراہ پر بہت سے حادثات بھی رونما ہو رہے ہیں جن میں بہت سی قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے۔ جون 2019 میں اسی مغل روڑ پر پیش آئے ایک دلدوز سڑک حادثے میں 17 طالبات کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اس شاہراہ پر ہر آے روز دل دہلانے والی کوئی نہ کوئی خبر دیکھنے اور سننے کو ملتی ہی رہتی ہے۔ صرف چند روز قبل ہی اسی مغل شاہراہ پر شدید بارشوں کی وجہ سے ایک اور حادثہ پیش آیا جس میں محکمہ خزانہ کے ڈائریکٹر رنبیر سنگھ بالی، انکی اہلیہ اور بیٹے کی موقعہ پر ہی موت واقعہ ہو گئی اور انکی بیٹی شدید زخمی ہوئی۔ شدید اور موسلادھار بارشوں کی وجہ سے ہو رہے حادثات کی اس طرح کی اطلاعات پونچھ اور اس کے مضافات کے اور بھی بہت سے علاقوں سے ملتی رہتی ہیں۔گزشتہ سال شہر پونچھ سے ایک نوجوان دریا برد ہوا جس کی لاش پاکستان سے ملی تھی۔اسی طرح گزشتہ سال ہی گاوں اڑائی کا ایک نو عمر لڑکا محمد آصف جو اپنے والد کے ساتھ کتابیں اور وردی وغیرہ خریدنے کے لئے منڈی بازار میں گیا تھا، تیز بارش کی وجہ سے دریا خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہا تھا، باقی لوگوں کی طرح آصف بھی دریا کے کنارے دریا کا بہاو دیکھنے گیا کہ اچانک دریا نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دوسرے دن اس کی لاش ساتھرہ ڈیم سے ملی۔ اس سال 2023 میں منڈی کے ہی ساوجیاں کا ایک نوجوان محمد طارق عمر 35 سال، معمول کے مطابق جب منڈی اپنی اپنی دکان سے واپس گھر جا رہا تھا کہ تازہ بارش کی وجہ سے پاوں پھسلا اور دریا میں جا گرا اور خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
جہاں موسلادھار بارشوں کی وجہ سے پونچھ کے متعدد مقامات میں آے روز پیش آ رہے حادثات میں بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے وہیں لوگوں کو اس خراب موسم کی وجہ سے مالی طور پر بھی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ تحصیل منڈی کے بلاک ساتھرہ سے تعلق رکھنے والے منیر احمد عمر 50 کا کہنا ہے کہ”شدید بارشوں کی وجہ سے میرا مویشی خانہ گر گیا ہے اور میرے رہائشی مکان کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ میں انتہائی غریب شخص ہوں لہٰذا انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ میری امداد کی جائے۔“ منڈی کے ہی سیکلو علاقے میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ایک بہت بھاری پسی گر آئی۔ جس کے نتیجے میں اگر چہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن اس پسی کی زد میں آکر پانچ دکانیں زمین بوس ہو گئیں۔ دکانوں کے مالکین خلیل احمد ولد شفی ملک اور حفیظ اللہ خان سے جب ٹیم چرخا نے بات کی تو خلیل احمد کے فرزند محمد یاسین ملک عمر 30 کا کہنا تھا کہ”تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی میں بے روزگار تھا، میرے والد نے بینک سے قرضہ لے کر یہ دکانیں بنوائیں تھیں، میں نے ان دکانوں میں قرضہ کی رقم سے ہی ایک سیمنٹ سٹور رکھا تھا۔ لیکن وہ سب کچھ بربادی کی نذر ہو گیا، میری انتظامیہ سے اپیل ہے کہ یا تو مجھے اس نقصان کا معقول معاوضہ فراہم کیا جائے یا میرا بینک کا قرضہ معاف کرایا جائے۔“ اس حوالے سے جب تحصیلدار منڈی شہزاد لطیف خان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ”متعلقہ پٹواریوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ موقع کا جائزہ لیں تاکہ مزید کاروائی کے لئے لوازمات پورے کیے جا سکیں۔“ یاد رہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے پونچھ کے متعدد مقامات پر سڑکوں اور رابطہ پلوں کو بھی شدید نقصان ہوا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ساتھرہ اور دھڑہ کو جوڑنے والا رابطہ پل بارشوں کی نذر ہو گیا ہے۔اس حوالے سے وہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ”پل نہ ہونے کی وجہ سے ہم وقت پر اپنے کام پر نہیں جا سکتے اور نہ ہی ہمارے بچے وقت پر سکولوں جا سکتے ہیں۔ ہم صبح اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور جب پانی زیادہ ہو تو کئی گھنٹے ہمیں دریا کے کنارے پانی کے بہاو میں کمی آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر پانی کم نہ ہو تو کئی بار ہمیں اپنے بچوں کو گھر واپس بھیجنا پڑتا ہے جس سے انکی تعلیم کافی متاثر ہوتی ہے۔کئی بار ہمیں اپنے سکولی بچوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر دریا پار کرانا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں ہے۔“
شدید بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال اور عوام کی زندگی پر اس سے مرتب ہو رہے اثرات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ یاسین محمد چودھری نے تمام ضلع انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے اور ایک کنٹرول روم قائم کر کے تمام متعلقہ ملازمین و آفیسران کے امدادی فون نمبرات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہونچا دئے ہیں تاکہ کسی بھی خطرناک صورتحال کے ساتھ آسانی کے ساتھ نپٹا جا سکے۔ غور طلب ہے کہ خراب موسم اور موسلادھار بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال اور اس سے ہو رہے جانی و مالی نقصان کے لئے ہم اگر محض قدرت کو ہی ذمہ دار ٹھہرائیں تو یہ سراسر غلط ہے۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس صورتحال کے لیے قدرت سے زیادہ ہم خود ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم جنگلات کا بے دریغ کٹاو کرنے سے، ماحولیاتی آلودگی سے، ماحولیاتی تناسب کو خراب کرنے سے باز نہ آئے تو مستقبل قریب میں ہمیں قدرت کے قہر کے اس سے بھی سنگین نتائج دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔(چرخہ فیچرس)