ترجمہ وتلخیص۔ فاروق بانڈے
(نوٹ :رابن شرما ایک کینیڈین مصنف ہیں جو اپنی کتاب The Monk Who Sold his Ferari کے لئے بہت مشہور ہوئے .شرما ہندوستانی نژاد ہیں۔ اس کے پاس قانون میں ماسٹرس ڈگری ہے۔ ابتدائی طور پر، انہوں نے ایک وکیل کے طور پر کام کیا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس میں اطمینان یا سکون نہیں مل سکا۔ شرما نے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز 25 سال کی عمر میں کیا۔ وہ اپنی دوسری کتاب ‘دی مونک ہُو سیلڈ ہز فراری’ کے لیے بڑے پیمانے پر مشہور ہوئے۔ اس کتاب کے ساتھ، انھوں نے خود کو ”زندگی کی گہری سمجھ” کے طور پر دکھایا ان کی دوسری کتاب کے کامیاب ہونے کے بعد، اس نے وکیل کی حیثیت سے اپنا کیریئر چھوڑ دیا اور کل وقتی مصنف بن گئے۔کتاب گفتگو کی شکل میں دو کرداروں، جولین مینٹل اور اس کے بہترین دوست جان کے ارد گرد تیار کی گئی ہے۔ جولین ہمالیہ کے سفر کے دوران اپنے روحانی تجربات بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے چھٹی والے گھر اور سرخ فیراری بیچنے کے بعد کیا تھا۔اس کتاب کی اب تک 40 لاکھ سے زیادہ کتابیں فروخت ہوچکی ہیں۔)
مجھے آج تک یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سنسنی خیز قتل کیس کے لئے،جس پر اس کو موسمِ گرما میں بحث کرنی تھی،اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے مجھے ہی کیوں چنا۔اگرچہ کہ میں نے ہاو رڑ لاء سکول سے گریجویشن کی تھی،جہاں کا وہ بھی طالب علم رہ چکا تھا،یقینی طور میں فرم کا سب سے قابل انٹرن بھی نہیں تھااورنا ہی میرا جنم کسی بڑے خاندان میں ہوا تھا۔ کچھ عرصے تک بحری فوج میں کام کرنے کے بعد میرے باپ نے اپنی ساری زندگی ایک بینک کے سیکورٹی گارڈ کے طور نوکری کی تھی، میری والدہ ’برنکس ‘میں ساد ا طریقے سے پلی بڑھی تھیں۔ پھر بھی انہوں نے ان دیگر لوگوں میں سے میرا ہی انتخاب کیا جو خاموشی سے اس کیس میں اس کا ساتھی بنے کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہے تھے، جوکیس بعد میں’ تمام قتل کے مقدموں کی ماں‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے مجھے کہا کہ میرے کام کرنے کی شدید خواہش اسے پسند ہے۔یقینا ہم جیت گئے اور کارپوریٹ ایگزیکٹو جس پر اپنی بیوی کا بڑی بے رحمی سے قتل کرنے کا الزام تھا ،اب وہ ایک آزاد آدمی ہے۔۔ یااتنا ہی آزاد جتناکہ اس کا ضمیر اسے اجازت دیتا ہو گا۔
گرمیوں کے موسم کا یہ سبق میرے لئے بہت ہی قیمتی تھا۔یہ ایک سبق سے بڑھ کر تھا کہ وہاںشک پیدا کرنے کاایک طریقہ تھا جہاں بظاہر شک کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو وہاں معقول شک کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قابل وکیل ایسا کر سکتا تھا۔ یہ جیتنے کی نفسیات کا ایک سبق تھا اور ماسٹر کو کام کرنے کے دوران دیکھنے کا ایک نادرموقع ، اور میں نے ایک سپنج کی طرح اسے اپنے میں جزب کیا۔
جولین کی دعوت پر میں فرم میں ایک ساتھی کی حثیت سے کام کرتا رہا اور ایک دیر پا دوستی ہمارے بیچ بہت جلد فروغ پاگئی۔ میں یہ تسلیم کرؤں گا کہ ساتھ میں کام کرنے کیلئے وہ ایک آسان وکیل نہیں تھا۔ اس کے جونئیر کے طور کام کرنا اکثر مایوسی کی ایک مشق ہوتی تھی،جس کی وجہ سے رات دیر تک چلانے والے میچوں کا ایک مقابلہ ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کا اس کا طریقہ تھا یا بڑھیا طریقہ۔ یہ شخص کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتا ہے۔پھر بھی ایک سخت مکھوٹے کے پیچھے ایک ایسا انسان چھپا ہوا تھا جو واضع طور پر لوگوں کا دھیان رکھتا تھا۔
اپنے کام میں مشغول رہنے کے باوجود وہ ہمیشہ جینی کے بارے میں پوچھتا تھا،وہ عورت جس کو میں آج بھی ’ میری دلہن‘ کہہ کر پکارتا ہوں باوجود اسکے کہ ہمار ی شادی میرے لاء سکول جانے سے پہلے ہی ہوئی تھی۔موسم گرما کے ایک اور انٹرن سے معلوم ہونے پر کہ میں سخت مالی مشکلات سے دوچار ہوں، جولین نے میرے لئے ایک خطیر رقم وظیفے کا انتظام کرایاتھا۔ یہ سچ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ آزاد طریقے سے وقت گزارنا پسند کرتا تھا، لیکن اس نے اپنے دوستوں کو کبھی بھی نظر اندا ز نہیں کیا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جولین پر کام کرنے کا جنون سوارتھا۔
پہلے چند برسوں تک اپنے کام کرنے کے طویل اوقات کار کا جواز یہ کہہ کر پیش کرتا رہا کہ وہ یہ سب ’ فرم کی بھلائی ‘کے لئے کر رہے ہیں،اور اگلے موسمِ سرما میں یقینی طور پر ایک ماہ کی چھٹی پر ’ کیمینز‘ جانے کا منصوبہ بنا رہاہے۔تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قابلیت کی شہرت بڑھتی گئی اور اس پر کام کا بوجھ بھی بڑھتا گیا۔ بڑے بڑے اور بہتر کیس اسے ملتے گئے اور جولین ،کبھی بھی کسی بڑے چلینج سے پیچھے نہیں ہٹتے، اس کی محنت و مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ سکون کے نایاب لمحوں میں اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بغیر جاگے چند گھنٹے ہی سو پاتاہے ، یہ سوچ کر کہ وہ کسی فائل پر کام نہیں کر رہا تھا، شرمندگی محسوس کرتا ہے۔بہت جلد مجھ پر یہ واضح ہوگیا کہ اسے زیادہ کی بھوک کھائے جا رہی ہے،زیادہ عزت،زیادہ شہرت اور زیادہ دولت۔
توقعات کے عین مطابق جولین نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس نے وہ سب کچھ حاصل کیا جو زیادہ تر لوگ چاہتے ہیں، سات ہندسوں کی آمدنی کے ساتھ عمدہ پیشہ ورانہ ساکھ، مشہور ہستیوں کے محلے میں ایک شاندار حویلی، ایک نجی جیٹ (ہوائی جہاز)، ایک منتقہ حارا جزیرے(Tropical Island) پر مکان ،اور اس کی انمول جائداد۔۔اسکے ڈرائیو وے کے وسط میں پارک کی گئی لال چمک دار فیراری(کار)
پھر بھی میں جانتا تھا کہ سب کچھ اتنا ٹھیک نہیں جتنا کہ اوپری سطح سے لگتا تھا۔مجھے آنے والے خطرے کے آثار دکھائی دے رہے تھے،اس وجہ سے نہیں کہ میں فرم میں کام کر رہے دیگر ساتھیوں سے زیادہ فہم رکھتا تھا بلکہ اس لئے کہ میں اپنا زیادہ تر وقت اسی شخص کے ساتھ گذارتا تھا۔ ہم ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے کیونکہ ہم ہر وقت کام پر ہوتے تھے۔ کام کم نہیں ہورہا تھا۔ہمیشہ ہی ایک دوسرا اہم مقدمہ لائن پر ہوتا تھا جو کہ پچھلے مقدمے سے بھی بڑا ہوتا تھا۔ مقدمے کیلئے کوئی بھی تیاری جولین کے لئے کافی نہیں ہوتی تھی۔ اگر جج نے، خدا نہ کرے، یہ سوال اُٹھایا ، یا وہ سوال اُٹھایا،تب کیا ہوگا؟ اگر ہماری تیاری مکمل نہیں ہو گی،تب کیا ہوگا؟ اگروہ بھری عدالت کے وسط میںحیرت زدہ ہو کر رہ گیا، جس طرح گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی سے ایک ہرن رہ جاتی ہے،تب کیا ہوگا؟ اسلئے ہم اورزیادہ محنت کرتے تھے، اور اُس کی چھوٹی سی کام کرنے والی دنیامیںمیرا بھی خون پسینہ بہنے لگا۔ادھر ہم،گھڑی کے دو غلام تھے جو سٹیل اور شیشے کی بنی اونچی عمارت کی چونسٹھویں منزل پر اس وقت بھی کام کر رہے ہوتے تھے جب دانا لوگ اپنے گھروں میں اپنے کنبے کے ساتھ ہوتے تھے، یہ سوچ کر کہ دینا کو ہم نے اپنی مٹھی میں کر لیاہے، کامیابی کے ایک سرابی نسخہ سے اندھے ہو گئے تھے۔
جولین کے ساتھ جتنا زیادہ وقت میں گذارتاگیا اتنا ہی مجھے یہ ادراک ہوتا گیا کہ وہ خود کو کھائی میں گھیسٹ رہا تھا۔ گویا اسے کسی قسم کی موت کی خواہش تھی۔وہ کبھی کسی بھی چیز سے مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ بلآخر اسکی شادی ناکام ہو گئی، اس نے اپنے والد سے بات کرنی چھوڑ دی،اور اگرچہ کہ اس کے پاس تمام مطلوبہ مادی املاک موجود تھی جس کی کسی کو بھی خواہش ہو سکتی ہے،مگر ابھی بھی شاید اسے وہ چیز حاصل نہیں ہوئی تھی جس کی اسے تلاش تھی اور یہ اس کے جذباتی،جسمانی اور روحانی سطح پر صاف دکھ رہا تھا۔جاری