تحریر:سلمی راضی
وادی کشمیر سے ملتا جلتا ضلع پونچھ کا وہ علاقہ جس کو منڈی کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔چاروں طرف بلندوبالا پہاڑیوں کے درمیان منڈی ہیڈ کواٹر کا چھوٹا سا گاوں آباد ہے۔ نہائت گنجان آبادی والے اس گاوں کو تحصیل کواٹر کہاجاتاہے۔جہاں پر غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال،دو ہائیر سیکنڈری اسکول، دو مڈل اسکول اورایک پرائمری اسکول تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دے رہے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ چار غیر سرکاری اسکول اور تین دینی ادارے بھی قائیم ہیں۔ منڈی ہیڈ کواٹر سے منڈی پھاگلہ، منڈی اعظم آباد چھیلہ ڈھانگری اتولی، منڈی لورن، منڈی ساوجیاں،منڈی اڑائی،منڈی سلونیاں، منڈی پونچھ رابطہ سڑکیں جاتی ہیں۔ ان تمام تر علاقوں سے ہزاروں لوگ سب ضلع ہسپتال منڈی میں اپنے علاج و معالجہ کی غرض سے آتے ہیں۔بلکہ یہ سب ضلع ہسپتال چنڈک ننگالی صاحب درہ جھلاس سلوتری کھنیتر تک علاقہ کا بلاک ہیڈ ہے۔معمولی علاج و معالجہ تو یہاں ہوجاتاہے۔ لیکن یہاں سرجن سپیشلیسٹ اور فزیشن نہ ہونے کی وجہ سے پونچھ یا دوسرے شہروں میں علاج و معالجہ کی غرض سے جاناپڑتاہے۔یہ معاملہ الگ رہا۔
اس وقت جو سب سے بڑی پریشانی مریضوں، ڈاکٹروں، اور ہسپتال میں معمور عملہ کو درپیش ہے،وہ جگہ کی قلت ہے۔ جس کو دیکھتے ہوے سال2018/19 میں ہسپتال کی پرانی عمارت کو مسمار کرکے ایک کروڑ چوراسی لاکھ روپیہ کی لاگت سے باہر کے مریضوں کے لئے مخصوص شعبہ کے لئے تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا۔ جو ابھی 2022 ء تک بھی نامکمل ہے۔محمد تقی علی 64 سال، جو محکمہ صحت عامہ سے سبکدوش ہیں، انہوں نے ہسپتال کی حالت زار پر بات کرتے ہوے کہاکہ غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال منڈی کی او،پی،ڈی کی عمارت گزشتہ دو سالوں سے تشنہ تکمیل ہے۔ جس کی وجہ سے ہسپتال عملہ کو سخت پریشانیوں کا سامناکرناپڑ رہاہے۔ہسپتال کی عمارت کے بلکل سامنے آو پی ڈی کی عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔ جس کا کام ابھی ادھورا پڑاہے اور باہر سے آنے والے مریضوں کو اندر جانے کے لئے راستہ تک نہیں مل پاتا ہے۔ اگر ہسپتال جیسی ضروری تعمیر میں اسقدر دیر ہوسکتی ہے تو دیگر ترقیاتی کاموں کا کیا حال ہوگا؟
اس حوالے سے بلاک میڈیکل آفیسر منڈی نصرت النساء بھٹی نے بات کرتے ہوے کہاکہ اس وقت کویڈ 19کے وارڈ مخصوص کرکے ٹیسٹ وویکینسشن شعبہ کو الگ کرکے ڈاکٹروں اور دیگر ہسپتال عملہ کے لئے جگہ بہت کم پڑتی ہے۔اگر اندرونی حالت دیکھی جاے تو ڈسپنسری وارڈ میں رکھی گئی ہے۔ ڈاکٹروں کو مریض چک کرنے کے لئے بھی مخصوص کمرے میسر نہیں ہیں۔ ایوشمان شعبہ کے لئے بھی جگہ کی قلت ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس او پی ڈی کے لئے رقومات مختص کی جاچکی ہے۔ لیکن ابھی کچھ کم ہی رقم واگزار ہوئی ہے۔اب یہاں اس عمارت کی تعمیر سے قبل یہاں ایک عمارت تھی۔جس کو 2019میں منہدم کر کے یہاں پر ایکسرے،الٹراسونڈ،سٹور ودیگر دفاتر کو عارضی طور پر نئی عمارت میں منتقل کیاگیاتھا۔ لیکن آج چار سال گزرجانے کے باوجود اس عمارت کی تعمیر مکمل نہ ہونے کی وجہ یہاں تمام شعبہ جات دھرم بھرم ہوگئے ہیں۔ اسٹور کہیں،الٹراسونڈ کہیں،ایکسرے کہیں، لیبارٹری،ایوش ادویات،اور دوسرے جو کام کاج کئے لئے دفتر تھے۔وہ کہیں دربدر ہیں۔ جس کی وجہ سے جہاں لوگ پریشان ہیں وہی ڈاکٹر اور ہسپتال عملہ بھی پریشان ہے۔
محکمہ تعمیرات عامہ کے زیر اہتمام اس کام کو کیاجارہاہے۔جو رقومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ٹھیکدار نے یہ کام ادھورا چھوڑ دیاہواہے۔ اس سلسلہ میں ٹرانسفر ہونے سے قبل اس عہدے پر فائز محکمہ تعمیرات عامہ کے ایکزیکٹیو ایسیسٹنٹ انوار احمد خان کے مطابق اس عمارت کے لئے ایک کروڑ چوراسی لاکھ روپیہ مختص کیاگیاہے۔لیکن ابھی تک قریب نوے لاکھ روپیہ کی رقم ہی ٹھیکدار کو مل پائی ہے۔ ایسے میں ابھی ٹھیکدار بھی مقروض ہوچکاہے۔ جس کی وجہ سے اس نے کام بند کیاہواہے۔ ان کے مطابق آنے والے مارچ سے پہلے پہلے ہی اس کی باقی رقم بھی سرکار کی جانب سے رلیز کی جائے گی۔ جس طرح باقی کاموں کی رقم آرہی ہے۔ انہوں نے مارچ 2022 سے پہلے اس کی رقم کی ادایگی کا یقین دلایا۔انہوں نے کہا کہ سردیوں کے ختم ہونے کے بعد جلد اس عمارت کا کام دوبارہ شروع کیاجایگا۔ یہ سب ضلع ہسپتال جو ایک لاکھ آبادی سے ذائید نفوس کی تشخیص کا واحد مرکز ہے۔جس عمارت میں ہر روز سیکنڑوں مریض آتے ہیں۔ لیکن نہ یہاں اندر داخل ہونے کے راستہ ہے اور نہ کھڑے ہونے کے جگہ ہے۔ زیر تعمیر عمارت ادھوری حالت میں عوام و خواص کے لئے باعث مصیبت بنی ہوئی ہے۔اس عمارت کی سست تعمیر کی وجہ سے تیار شدہ عمارت میں نظام متاثر ہواہے۔اس حوالے سے سماجی کارکن فاروق احمد خان جن کی عمر 45سال ہے،نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہاکہ غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال منڈی واحد وہ شفاحانہ ہے جوایک لاکھ سے زیادہ آبادی کی جانوں کو تحفظ فراہم کر سکتاپے۔جس کی تعمیر نو اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ لگتاہے 2030 تک انتظار کرنا پڑے گا۔ یہاں عوام مریضوں،ڈاکٹروں اور عملہ کو مزید پریشانیوں مصائیب سے دوچار ہونا پڑتارہیگا۔
کویڈ کی وجہ سے سخت ترین پریشانیوں کے باوجود ہسپتال انتظامیہ اور لوگوں کے درمیان متعدد بار کشمکش بھی ہوچکی ہے۔ ایسے میں لیفٹنٹ گورنر اور طبعی شعبہ کی دیکھ بال کررہے ان کے مشیر کو منڈی جیسے سنگلاخ علاقے میں اس شفاء خانہ کی زیر تعمیر عمارت کی رقومات کو واگزار کرواکر کام مکمل کرنے کے احکامات صادر کرنے چاہئے۔لیکن نہ جانے اس سنگلاخ علاقے کی اس ہسپتال کی عمارت کی مختص رقم کو واگزار کرنے میں دیر کس بات کی ہو رہی ہے؟آخر کیوں ایک لاکھ سے ذائید آبادی والا یہ سب ضلع ہسپتال جگہ کو ترس رہا ہے؟
(چرخہ فیچرس)