بالی ووڈ فلم کشمیر فائلز ان دنوں موضوع کا بحث بنی ہوئی ہے ۔ فلم میں کشمیری پنڈتوں کی نوے کی دہائی میں نقل مکانی کے حوالے سے عکاسی کی گئی ہے ۔ کشمیری پنڈت اپنے آبائی گھر چھوڑنے پر اس وقت مجبور ہوئے جب کشمیر میں عسکریت پسندی کا آغاز ہوتے ہی پورا سرکاری نظام تہس نہس ہوکر رہ گیا تھا ۔ سیاسی حکومت نے استعفیٰ دیا اور اس کے کلیدی رہنمائوں نے وادی چھوڑ کر اپنی جان بچانے میں عافیت سمجھی ۔ اس کے بعد یہاں قتل عام شروع ہوا ۔ ابتدائی زمانے میں زمام کار لبریشن فرنٹ کے ہاتھوں میں تھی ۔ فرنٹ کے رہنمائوں نے اپنے بانی سربراہ مقبول بٹ کے سزائے موت کا بدلہ لینے کے لئے سزا سنانے والے جج نیل کانٹھ گنجو کو دن دہاڑے ہلاک کرنے کے علاوہ کئی دوسرے پنڈتوں کو گولی مار کر موت کی نیند سلادیا ۔ اس دوران کئی دوسرے سیاسی کارکن اور اکثریتی فرقے کے افراد بھی مارے گئے ۔ تاہم ان ہلاکتوں کی وجہ سے خوف وہراس کا بدترین ماحول پیدا ہوا ۔ دن رات جلسے جلوسوں کا انعقاد ہونے لگا ۔ مسجدوں سے نعروں اور ترانوں کی گونج سنائی دینے لگی اور ہندوستان نواز لوگوں کے خلاف جگہ جگہ پوسٹر چسپان کئے گئے ۔ اس طرح کے ماحول کے اندر ایسے کسی فرد کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا جس پر ہندوستان نواز ہونے کا لیبل لگائے جاسکے ۔ کشمیری پنڈت اس حوالے سے اولین ہدف سمجھے جانے لگے ۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ کشمیر میں مقامی انتظامی اہلکار خوف کی وجہ سے گورنر انتظامیہ سے تعاون کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ ایسا کرکے پنڈتوں کی نقل مکانی روکی جاسکتی تھی ۔گورنر کے لئے کسی بڑی واردات سے بچنے کے لئے پنڈتوں کی کشمیر سے باہر منتقلی واحد اوپشن تھا۔کوئی متبادل حل موجود نہ ہونے کی وجہ سے پنڈتوں کی کشمیر سے منتقلی کا آغاز ہوا ۔ پورا عمل چند دنوں کے اندر مکمل ہوگیا ۔ اس طرح سے ڈیڑھ لاکھ کشمیری پنڈتوں میں سے ایک لاکھ کے قریب پنڈت اپنا گھربار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف منتقل ہوگئے ۔ نئی پناہ گاہوں کے اندر ان کشمیری پنڈتوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ پنڈت آج تک واپس نہ لائے جاسکے ۔ اس طرح کی المناک صورتحال کو لے کر کئی سیاسی ، سماجی اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ ان سب کا ایجنڈا کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا بیان کیا گیا ۔ لیکن کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک بڑا ایشو بنا ہوا ہے ۔ اسی حوالے سے دی کشمیر فائلز کی تازہ فلم بناکر سامنے لائی گئی ۔
فلم ، ڈراما ، ناول یا کوئی دوسری ایسی صنف تاریخ کے جتنا بھی قریب ہو حقیقت قرار نہیں دی جاسکتی ہے ۔ اس میں افسانوی اور رومانوی رنگ سازی بہت اہم ہوتی ہے ۔ اسی ذریعے سے عوام کے اندر اس کو قبول عام حاصل ہوتا ہے ۔ اس پہلو کو جتنی مہارت سے پلاٹ میں لایا جائے اتنا ہی زیادہ عوام کی پذیرائی ملتی ہے ۔ دی کشمیر فائلز اس حوالے سے ایک دلچسپ فلم ثابت ہوئی جس نے منظر عام پر آتے ہی لوگوں کی توجہ حاصل کی اور پرانے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ فلم گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کے لئے تیار کی گئی ۔ اس وجہ سے فلم کو ایک سماج دشمن فلم سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے فلم کی حمایت کرنے والے اسے فکشن ماننے کے بجائے پنڈتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی حقیقی عکاسی قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم عسکریت کے عروج کے زمانے میں بنی تاریخ کی صحیح نمائندگی کرتی ہے ۔ اس دوران کئی کشمیری پنڈتوں نے فلم کو حقایق کے بالکل منافی قرار دیا ۔ ان کا الزام ہے کہ فلم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اس کے برعکس کچھ لوگ فلم کو فن اور انصاف کا اعلیٰ درجے کا نمونہ مانتے ہیں ۔ ادھر کئی سیاسی تنظیموں کے رہنمائوں نے فلم پر اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے اسے سماج میں فرقہ پرستی اور تفرقہ بڑھانے کی سازش قرار دیا ۔ یہ رہنما الزام لگاتے ہیں کہ فلم سرپرستی کرتے ہوئے اسے مالی معاونت کی گئی تاکہ سماجی اتحاد میں دراڑیں ڈالی جاسکیں ۔ فلم کی وجہ سے کشمیر ایک بار پھر موضوع بن گیا اور نوے کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ بہ ظاہر فلم میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس طرح کی باتیں پچھلے تیس چالیس سالوں سے ہورہی ہیں ۔ تاہم نئی جنریشن کے لئے جنہوں نے کشمیر ملی ٹنسی کا براراست مشاہدہ نہیں کیا ایسے فلمی سین دلچسپی کا باعث ہیں ۔ فلم کا پلاٹ بہت ہی ڈھیلا ہے ۔ کردار بھی مضبوط نہیں ۔ زبان بھی زیادہ پراثر نہیں ۔ اس کے باوجود فلم نے پہلے ہی ہفتے کے دوران کئی سو کروڑ کا منافع کمایا ۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ فلم بڑے پیمانے پر پسند کی جارہی ہے ۔