سابق گورنر ستیہ پال ملک پچھلے تین سالوں سے برابر کشمیر پر اپنے بیان دے رہے ہیں ۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے کشمیر کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے مسلسل بیانوں پر کئی حلقوں میں شک و شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ پہلے انہوں نے دفعہ 370 کے ہٹائے جانے پر کئی کانفرنسوں میں بات کی ۔ بعد میں جموں کشمیر میں کام کررہے اعلیٰ آفیسروں کے بارے میں بتایا کہ بڑے پیمانے پر رشوت کے لین دین میں ملوث ہیں ۔ ان کا یہاں کی بیوکریسی کے حوالے سے یہ موقف ہے کہ بلا تخصیص اپنے عہدے کا استحصال کرکے بے حد دولت کماتے رہتے ہیں ۔ ملک نے ان آفیسروں کی کوٹھیوں اور شاہانہ طرز زندگی کا حوالہ دے کر بتایا کہ ایسا ناجائز کمائی کی بدولت ہی ممکن ہورہاہے ۔ اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے سابق گورنر نے ذاتی تجربے کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تین سو کروڑ روپے رشوت کی پیش کش اس وقت مسترد کی جب انہیں صرف دو فائلوں پر دستخط کرنے کے لئے کہا گیا ۔ اس طرح سے انہوں نے ایک ایسے اسکنڈل کو منظر عام پر لایا جس کو کسی بھی صورت میں ٹالا نہیں جاسکتا ۔ حد تو یہ ہے کہ آپ اس طرح کے بڑے اسکنڈل کا مسلسل حوالہ دیتے رہے اور اس میں مبینہ طور دہلی کی کچھ بااثر کمپنیوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جموں کشمیر کے موجودہ لیفٹنٹ گورنر نے ملک کے ان بیانات کی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سے تحقیقات کرنے کی سفارش کی ہے ۔ تاکہ اس طرح کے اسکنڈل اور ملک کے بیانات کی حقیقت عوام کے سامنے لائی جاسکے ۔
کسی بھی ریاست کا گورنر ہونا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اس طرح کے سرکاری عہدے کو بڑا ہی حساس اور نازک عہدہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس عہدے پر عام طور سنجیدہ اور باوقار شخصیات کو ہی تعینات کیا جاتا ہے تاکہ سرکاری راز افشا نہ ہوسکیں ۔ بلکہ ر گورنر سے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے راز داری کا حلف لیا جاتا ہے ۔ آج تک یہی روایت رہی ہے کہ ایسے عہدوں پر کام کرنے والے افراد بڑے ہی باعزت اور کشادہ دل سمجھے جاتے ہیں ۔ ان سے کسی بھی طرح کی اول فول باتوں اور گورنر ہائوس کے اندر ہونے والی سرگرمیوں کے سربازار سامنے لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ خاص طور سے جموں کشمیر کی ریاست کے سربراہ کے حوالے سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ کسی حساس معاملے پر کھل کر بات کرے ۔ یہ علاقہ ہمیشہ ہی ایک نازک علاقہ اور یہاں کی سیاسی ، سماجی اور سرکاری سرگرمیاں سنجیدہ سرگرمیاں مانی جاتی ہیں ۔ ایسی سرگرمیوں کے بارے میں بیان دینے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ۔ بلکہ کئی مشیروں سے رائے لے کر ہی ایسے موضوعات پر کوئی بیان دینا مناسب سمجھا جاتا ہے ۔ سابق گورنر جو اس وقت میگھالیہ کے گورنر ہیں ، نے ایسی تمام حدیں پار کرکے کئی راز بیچ چوراہے کے پھوڑ دئے اور بارا بار اس طرح کے انکشاف بازار میں لاتے رہتے ہیں ۔ اس وجہ سے ملک کا اپنا وقار تو اثر انداز ہوا ہی ساتھ ہی کشمیر کی موجودہ انتظامیہ کو بھی بیک فٹ پر ڈال دیا ۔ کسی بھی انتظامیہ کے لئے ایسے تبصرے برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ جموں کشمیر نے پچھلے تین سالوں کے دوران ملک کے بیانات پر بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن اب بات ان کے برداشت سے بھی باہر ہوتی نظر آرہی ہے ۔ یوٹی کے موجودہ ایل جی نے رشوت کے اس معاملے کی تحقیقات کی سفارش کی ہے جس کا انکشاف ستیہ پال ملک نے کئی اہم موقعوں پر کیا ۔ کشمیر کے عوام کے لئے ایسے انکشاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ یہاں کے عوامی حلقوں میں بہت پہلے سے یہ بات زبان زد عام ہے کہ جموں کشمیر کے اعلیٰ انتطامی عہدوں پر کام کرنے والے آفیسروں کو عوامی خدمت سے زیادہ اپنی کمائی کی فکر رہتی ہے ۔ موجودہ اعلیٰ اہلکاروں کو چھوڑ کر ماضی میں بیشتر ایسے عہدے داروں کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ انہیں جموں کشمیر عیش و عشرت اور دولت کمانے کے لئے بھیجا جاتا ہے ۔ ایسے عہدے داروں کو سیاسی سرپرستی کے علاوہ دہلی میں موجود کچھ خاص عناصر کی سرپرستی حاصل ہونے کی بات کی جاتی ۔ اس وجہ سے ان کے خلاف کوئی منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتا تھا ۔ ستیہ پال ملک نے پہلی بار ایسا کرکے بہت سے حلقوں کو چونکا دیا ۔ اس کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے ۔ تحقیقات سے واقعی اصل حقایق سامنے آئیں گے ایسی کوئی امید رکھنا ابھی مشکل ہے ۔ تاہم یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ رشوت کے ایسے بڑے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ۔ امید ہے ک کچھ نہ کچھ سامنے آ ہی جائے گا ۔