پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ الٰہی باغ کے جس شخص کی لاش ڈل جھیل سے مل گئی تھی وہ اصل میں قتل کا معاملہ ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مقتول کو کسی دشمن نے نہیں بلکہ اپنے دو سگے بیٹوں نے قتل کیا ۔ ابتدائی تفتیش میں کہا گیا کہ کسی بات پر معمولی تکرار کو لے کر قتل کا یہ سانحہ پیش آیا ۔ یاد رہے کہ7 اپریل کو پولیس کو اطلاع ملی کہ ڈل جھیل کے آخون محلہ کے پاس والے حصے میں کسی شخص کی لاش دیکھی جا رہی ہے ۔ پولیس نے فوری کاروائی کرتے ہوئے لاش کو تحویل میں لیا اور اس کا پوسٹ مارٹم کرایا جہاں سے معلوم ہوا کہ اس کے گلے پر خراش پڑے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ موت گلا دبانے سے ہوئی ہے ۔ پولیس نے تحقیقات آگے بڑھاتے ہوئے گھر والوں سے پوچھ تاچھ کی ۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ قاتل کوئی غیر نہیں بلکہ اس کے اپنے بیٹے ہیں ۔ دونوں بھائیوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ یہ بہت ہی ہیبتناک واقعہ قرار دیا جاتا ہے ۔
بیٹوں کے ہاتھوں بات کا قتل ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ اس معاملے میں یہ ثابت کرنا بلا ضرورت ہے کہ غلطی کس کی ہے ۔ باپ ہمیشہ بیٹوں کی بھلائی چاہتا ہے ۔ بیٹوں کی نظر میں باپ ہمیشہ غلط ہوتا ہے ۔ بیٹے یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنے باپ سے زیادہ عقل مند اور سمجھ دار ہیں ۔ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ باپ خود کو سخت مصائب میں ڈال کر بیٹوں کی فلاح و بہبود کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے باوجود بیٹے ساری عمر یہی کہتے رہتے ہیں کہ باپ نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہوتا ہے ۔ باپ کی محنت کے بغیر بیٹے کا آگے بڑھنا ہر گز ممکن نہیں ۔ مانا جائے کہ کچھ لوگ باپ کی کوششوں کے بغیر بھی ترقی کرتے ہیں ۔ تاہم باپ کا رول نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔کسی بھی بات کی بنیاد پر باپ کو کسی بھی صورت میں خطاوار قرار دے کر قتل نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسا قتل کسی وحشی درندے سے بھی ممکن نہیں ۔ درندے اور جنگلی جانور بھی اپنے ماں باپ سے جھگڑتے ، جنگ کرتے اور خون بہاتے نہیں دیکھے گئے ۔ اس کے برعکس انسان اس قدر خون خوار بن گیا ہے کہ اپنے ہی والدین کا قتل کرتا ہے ۔ بیٹوں کے ہاتھوں باپ کا قتل اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ۔ بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات اخبارات کی سرخیوں میں آئے ہیں ۔ شاید اس طرح کا پہلا واقع ڈلگیٹ میں پیش آیا تھا جب مالدار آدمی کے بیٹے نے باپ کی دولت ہتھیانے کی غرض سے اپنے دوست سے مل کر باپ کو قتل کیا ۔ جب سے لے کر اس طرح کی کئی واقعات پیش آئے ۔ تاز ہ واقع پچھلے ہفتے پیش آیا جب 5اپریل کو دو بیٹوں نے اپنے باپ کو قتل کیا ۔ واردات کو چھپانے کے لئے دونوں بھائیوں نے باپ کو نجی گاڑی میں ڈال کر جھیل میں پھینک دیا ۔ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے اور دوسرے شواہد کی مدد لے کر ملزموں تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ۔ دونوں بھائی اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں ۔ کشمیری سماج کے لئے یہ بڑا سانحہ ہے ۔ اس طرح کا واقع کسی اور جگہ پیش آیا ہوتا تو نہ جانے اس کو یہاں کس طرح کی داستان کا رنگ دیا گیا ہوتا ۔ لیکن یہ اپنے چہرے کا بدنما داغ ہے جس پر کسی کی نظر نہیں جاتی ۔ یا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ باپ کی وراثت کو لے کر لڑنا جھگڑ نا یہاں کی پرانی روایت ہے ۔ وراثت کے ایسے تنازعوں پر پہلے بھی جنگ و جدل ہوا اور قتل کی وارداتیں پیش آئیں ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان واقعات کو لے کر سماج کو سدھارنے کی کوششیں کی جاتیں ۔ لیکن ایسا کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس کا معاملہ ہے کہ سماج اس قدر بے حس ہوچکا ہے جہاں ایسے معاملات کو لے کر کچھ بھی کہا یا سنا نہیں جاتا ۔ کوئی اتھل پتھل ہوتی نہ کوئی رد عمل سامنے آتا ہے ۔ بلکہ ہر کوئی اس کو سرسری انداز میں لے کر اسے پس پشت ڈال دیتا ہے ۔ خوش قسمتی سے پولیس نے بروقت پتہ لگایا کہ قتل میں مقتول کے اپنے بیٹوں کا ہاتھ ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماراسماجی بگاڑ اپنی آخری حد کو پہنچ گیا ہے ۔ بیٹوں کے ہاتھوں باپ کا قتل افسوناک واقعہ ہے ۔
