مارچ مہینے کے دوران گرمی نے پچھلی ایک صدی کا ریکارڈ توڑ دیا ۔ اب اپریل کا پہلا عشرہ بھی ایسا ہی رہا ۔ اس دوران جموں کشمیر کے جنگلوں میں آگ لگنے سے بڑے پیمانے پر تباہی کی خبریں آرہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے ہفتے کے دوران ساٹھ سے ستھر مقامات پر جنگلوں میں آگ پائی گئی ۔ کئی محکموں نے مل کر مبینہ طور اس آگ پر قابو پالیا ۔ لیکن اس دوران بڑے پیمانے پر جو تباہی ہوئی اس کی بھرپائی کرنا مشکل ہے ۔ آگ کا مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جنگلی نباتات کے آگ کی لپیٹ میں آنے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے ۔ درختوں کے آگ کی لپیٹ میں آنے سے ان کا جل کر راکھ ہونا یا گرجانا عام سی بات ہے ۔ پریشانی یہ ہے کہ جنگلوں میں جہاں آگ لگ جاتی ہے وہاں بعد میں کئی سال تک نئے درختوں کا اگنا دور کی بات جنگلی جھاڑیاں بھی اپنا جھال بچھانے سے رہ جاتی ہیں ۔ اسی طرح جنگلی جانور نابود ہوجاتے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسے ایریا میں پائی جانی والی جڑی بوٹیاں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں ۔ آگ زیادہ تر ایسی جگہوں پر لگ جاتی ہے جہاں انسانوں کی آمد رفت رہتی ہے ۔ لوگ یہاں زیادہ تریہی جڑی بوٹیاں جمع کرنے جاتے ہیں جو ادویات کے طور استعمال ہوتی ہیں ۔ ان جڑی بوٹیوں کو اسمگل کرکے کافی پیسہ کمایا جاتا ہے ۔ اس دوران لوگوں کی بے احتیاطی سے آگ لگ جاتی ہے ۔ اسی طرح بعض جگہوں پر سیکورٹی فورسز کا گشت بھی رہتا ہے ۔ اس نقل وحمل سے بھی آگ کی وارداتوں میں مبینہ طور اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح محکمہ جنگلات اور دوسرے محکموں کے کارکن کسی کام سے جنگلوں میں جاتے ہیں تو بعد میں یہاں آگ کی وارداتیں نمودار ہوتی ہیں ۔ وجہ کچھ بھی ہو آگ لگنے سے جنگلوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے ۔
کئی مہینوں کی مسلسل خشک سالی کی وجہ سے شہری آبادیوں میں بھی جگہ جگہ آگ کی وارداتیں نمودار ہوئیں ۔ سرینگر اور جموں کے شہروں میں آگ لگنے سے املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ۔ لوگ بے گھر ہوکر کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ کئی جگہوں پر آہ وبکا سے معلوم ہوا کہ لوگوں کا سب کچھ لٹ گیا ہے ۔ ان کے زندگی بھر کی کمائی آگ کی نظر ہوگئی ۔ گھنی آبادیوں میں آگ لگنے سے لوگوں کے تمام اثاثے ختم ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ یہی حال جنگلوں کا ہے ۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصویروں سے پتہ چلا ہے کہ اس سال آگ لگنے سے جنگلات میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل خشک سالی اور بروقت بارش نہ پڑنے سے جنگلوں میں آگ لگنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ۔ اس سے پہلے یہی حالت موسم سرما کی رہی ۔ بہت کم بارشیں ہوئیں اور برف بھی پچھلے سالوں کی نسبت کم گری ۔ گلیشر نہ بننے کی وجہ سے جنگل ننگے اور خشک رہے ۔ مارچ کے شروع ہوتے ہی گرمی نے اپنا کمال دکھانا شروع کیا ۔ اس حوالے سے موجود ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ پچھلے ایک سو تیس سالوں کے دوران مارچ میں اتنی گرمی کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ بہ ظاہر یہ ایک معمولی بات ہے ۔ لیکن اس کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں ۔ ایگریکلچر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات پہلے سے دیکھے جارہے ہیں ۔ میوہ باغات میں غیرمعمولی گرمی اور بارش نہ آنے کی وجہ سے کئی بیماریو ں کے پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ ایسی بیماریوں پر ادویات چھڑکنے سے قابو پانا ممکن نہیں ہے ۔ اس وجہ سے میووں کی پیداوار میں کمی آنے کا سخت خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ ادھر ہر دن اور رات جنگلوں میں کئی کئی جگہوں پر بھڑکتی آگ کے شعلے نظر آرہے ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں میں خوف و راس پایا جاتا ہے ۔ ان جنگلوں سے درندے خاص کر ریچھ اور تیندوے انسانی آبادی کا رخ کرنے لگے ہیں ۔ ان جانوروں نے شہری آبادی میں خوف پھیلادیا ہے ۔ اگرچہ بیشتر جگہوں پر آگ پر قابو پالیا ہے ۔ تاہم موسم کا یہی رخ رہا تو مزید جگہوں پر آگ لگنے کا خطرہ ہے ۔ محکمہ موسمیات نے کچھ دنوں کے لئے بارشوں کی پیش گوئی کی ہے ۔ اس سے راحت ملنے کی امید ہے ۔ لیکن یہ راحت عارضی ہوگی ۔ جموں کشمیر میں جنگلوں میں آگ پر قابو پانے اک کوئی مضبوط نظام نہیں پایا جاتا ہے ۔ ان جنگلوں تک آگ بجھانے کی گاڑیاں پہنچانا ممکن نہیں ۔ کوئی دوسرا جدید نظام ہمارے پاس موجود نہیں ۔ ڈزاسٹر منیجمنٹ کا ادارہ کئی سال پہلے وجود میں لایا گیا ۔ لیکن یہاں تنخواہ بانٹنے کے سوا کوئی خاص آلات نہیں پائے جاتے ۔ اس وجہ سے جنگلوں کی حفاظت کا انتظام بھی نہیں ہے ۔