لیفٹیننٹ گورنرنے کہا ہے کہ معاشی ترقی کو تیز بنانے کے لئے سرکار بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے اور مختلف اسکیموں کو لاگو کرنے کے لئے اقدامات کررہی ہے ۔ اس حوالے سے ایک پوٹل لانچ کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کو صنعتوں سے وابستہ ہونے پر زور دیا ۔ ایل جی کا کہنا ہے کہ رواں سال کے دوران نوجوانوں کو ملازمت کے دس ہزار سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں گے ۔ مذکورہ پورٹل ہنر مند افراد کو صنعتوں کے ساتھ جوڑنے کا کام کرے گا۔ اس پورٹل کی مدد سے کسی بھی شخص کو ضروری جانکاری فراہم کرنے میں مددملے گی۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ بہت سے نوجوانوں کو اس بات کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے روزگار کماسکتا ہے ۔ غریب ممالک کے لئے نوجوانوں کو اس قسم کی جانکاری فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ ویژن انڈیا کے تعاون سے نوجوانوں کو صنعت سے جوڑنے کے لئے یہ وقف پورٹل لانچ کیا گیا ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس کی مدد سے نوجوانوں کو ضروری جانکاری کے علاوہ اپنے لئے روزگار تلاش کرنے میں مدد ملے گی ۔
باقی دنیا کی طرح جموں کشمیر کے لوگ بھی اس وقت بے روزگاری کے مسئلے سے دوچار ہیں ۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد پچھلے ستھر سالوں کے دوران بے روزگاری کی شرح اپنی تمام حدود پار کرچکی ہے ۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع تلاش کرنا مشکل ہورہا ہے ۔ دو سالوں کے دوران کووڈ 19 کی وجہ سے نجی سیکٹر سکڑ کر رہ گیا ۔ بہت سے لوگ آمدنی کے موجود ذرایع سے محروم ہوگئے ۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے آمدنی میں گراوٹ کی وجہ سے ملازموں کی تعداد کم کی ۔ اس وجہ سے نئی بھرتیوں پر روک لگادی گئی ۔ یومیہ روزگار کمانے کے لئے آمدنی کا کوئی وسیلہ نہ رہا ۔ سب سے بڑی رکاوٹ پڑھے لکھے نوجوانوں کے حصے میں آگئی ۔ بیرونی ممالک سے نوجوان واپس اپنے گھروں کو آگئے ۔ موت کا خوف اس قدر بڑھ گیا کہ ہر کوئی اپنے گھر اور اپنے عزیزوں کے پاس پہنچنے کی کوشش کرنے لگا ۔ جو لوگ پہلے سے برسر روزگار تھے وہ بھی بے روزگار بن گئے ۔ یہاں بڑی پریشانی یہ ہے کہ نوجوان سرکاری سیکٹر کے سوا کسی اور جگہ کام کرنے کو تیار نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں نجی ادارے خاص کر صنعتوں کا سخت فقدان پایا جاتا ہے ۔ مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 اس میں بڑی رکاوٹ تھی ۔ اس دفعہ کو منسوخ کرنے کے بعد سرکار دعویٰ کررہی ہے کہ جموں کشمیر میں صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوگا ۔ حکومت آنے والے دور کو سنہری دور سے تعبیر کررہی ہے ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ ہر کسی کے لئے آمدنی کے ذرایع میں اضافہ ہوجائے ۔ نوکریاں فراہم کئے بغیر نوجوانوں کو اطمینان حاصل ہونا مشکل ہے ۔ نوجوانوں کا خیال ہے کہ سرکاری سیکٹر میں محفوظ روزگار کی گارنٹی ہوتی ہے ۔ ادھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ آرام دہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں ۔ عالیشان مکان ، گاڑی اور جدید سہولیات کے بغیر یہ زندگی گزارنے کو تیار نہیں ۔ اس کے لئے آمدنی کے جو وسائل ہونے چاہئے وہ نظر نہیں آتے ہیں ۔ سرکاری اہلکاروں کے سوا ایسے وسائل کسی دوسرے کے پاس نہیں ۔ سرکاری ملازموں کی زندگی جس ڈھنگ سے گزرتی ہے اس کو دیکھ کر ہر کسی کی کوشش ہے کہ ملازمت حاصل کرے ۔ اس کے لئے کوئی بھی جائز یا ناجائز وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سرکار کے لئے ملازمتیں فراہم کرنا ممکن نہیں ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے ہی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ملازمتیں موجود ہیں ۔ ان ملازمتوں میں کمی لانے پر زور دیا جاتا ہے ۔ سرکار ملازمتوں کی فراہمی میں کمی لائے تو نوجوانوں کے لئے اس کے ساتھ سمجھوتہ مشکل ہوگا ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو پچھلے ستھر سالوں کے دوران یہاں پایا جاتا ہے ۔ اس کے مقابل کوئی پالیسی تلاش نہیں کی گئی ۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ نوجوانوں سے ملازمتیں فراہم کرنے کے وعدے کئے ۔ ایسے وعدے پورا نہ کئے گئے تو سرکار کے خلاف ووٹ دئے گئے ۔ روزگار ہر سیاسی جماعت کا نعرہ اور ووٹ بینک کا معاملہ رہا ہے ۔ ایسے وعدے پورا نہ کرنے کی وجہ سے یہاں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ۔ یہاں تک کہ یہ پوری آبادی کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ۔ بے روزگاری پر قابو پانا موجودہ انتظامیہ کے لئے ایک بڑا چیلنج بتایا جاتا ہے ۔ انتظامیہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس مسئلے پر بہت جلد قابو پایا جائے گا ۔ ایسا کیا گیا تو یہ کسی معجزے سے کم نہ ہوگا ۔