رشوت ستانی سے نمٹنے کے لئے قائم ایک ادارے نے پچھلے دنوں تین سرکاری ملازموں کو رشوت لیتے ہوئے پکڑ لیا ۔ محکمہ بجلی کے یہ تین ملازم ایک سائل سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ رقم وصول کرنے کے مرتکب پائے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ محکمے کے دو انجینئر اور ایک میٹر ریڈر ملی بھگت کرتے ہوئے اپنے ایک صارف سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اینٹی کورپشن بیرو کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ یہ تینوں ملازم محکمے کے ایک صارف کی مشکل دور کرنے کے لئے اسے رشوت دینے پر مجبور کررہے تھے ۔ اس دوران صارف نے اینٹی کورپشن بیرو سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں متعلقہ معاملے سے واقف کرایا ۔ اس شکایت پر فوری کاروائی کرتے ہوئے ایک جال بچھایا گیا ۔ تینوں ملازم اس جال میں آگئے اور دھر لئے گئے ۔ رشوت کی رقم اے سی بی کی طرف سے فراہم کی گئی تھی جو مبینہ طور ان ملازموں سے تلاشی کے دوران حاصل کی گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ تینوں ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں جیل بھیجدیا گیا ۔ مزید کاروائی جاری ہے ۔ توقع کی جارہی کہ رشوت کے اس معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا ۔
ایک ایسے مرحلے پر جبکہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ لوگوں کو صاف و شفاف انتظامیہ فراہم کیا جائے رشوت لینے کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے وقفے وقفے سے ایسے ملازمین کو نوکری سے سبکدوش کیا جارہاہے جن کو مبینہ طور رشوت میں ملوث پایا گیا ہے ۔ ایسے ملازموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے درجنوں ملزموں کو گھر بھیجدیا گیا تاکہ اس ناسور کو دور کیا جاسکے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس ناسور سے نجات حاصل کرنا مشکل ہے ۔ رشوت لینے والے ملازموں کے خلاف کاروائی کے بعد اس ضلالت کے عادی ملازموں کو خوف زدہ ہونا چاہئے ۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ بلکہ ملازم بڑے دیدہ دلیر بن کر یہ ناجائز کام اب بھی انجام دے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے ایک تھانے کے آفیسر کو اسی طرح رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ جب تھانے کا ایسا بڑا آفیسر جو مجرموں کے خلاف کاروائی کرنے پر تعینات ہے خود رشوت لینے کا عادی ہو ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوسرے سرکاری اداروں کی حالت کیا ہوگی ۔ تھانے دار کے علاوہ ایک تحصیلدار کو بھی مبینہ طور رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا ۔ محکمہ مال میں اس طرح کا کاروبار کئی دہائیوں سے چل رہا ہے ۔ اسی طرح کئی انجینئرنگ معاملوں میں یہ کام کھلے عام جاری ہے ۔ اندازہ تھا کہ انتظامیہ کی طرف سے رشوت کے خلاف تیز مم چلانے کے بعد اس کاروبار کو ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔ لیکن یہ ایسا خواب ہے جس کے پورا ہونے کی کم امید کی جارہی ہے ۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے عوض مریضوں سے رشوت وصول کی جارہی ہے ۔ للّہ دید ہسپتال کا وہ واقع ابھی تک بھلایا نہیں گیا جس میں ایک بچے کی جان کچھ سو روپے نہ دینے کی وجہ سے لی گئی ۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں کی انتظامیہ نے اس واقعے کو بڑی چالاکی سے چھپانے کی کوشش کی ۔ اب بھی وہاں یہ موقف اختیار کیا جارہاہے کہ بچے کی موت قتل کا نہیں بلکہ معمول کا واقعہ ہے ۔ ہسپتال میں جگہ جگہ سی سی ٹی وے کیمرے لگے ہوئے ہیں جو ایک ایک لمحے کی سرگرمیاں ریکارڈ کررہے ہیں ۔ اس ریکارڈنگ کی مدد سے چوری کے معمولی واقعے کو بہت جلد حل کیا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے اس کی مدد سے رشوت کے معاملات پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔یہی صورتحال دوسرے سرکاری اداروں کی بھی ہے ۔ کسی بھی ادارے میں اثر ورسوخ یا رشوت ادا کئے بغیر کوئی کام انجام پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس طرح کے سرکاری نظام کے اندر سدھار لانا بہت مشکل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سدھار نہ لایا جاسکے ۔ مشکل یہ ہے کہ وہاں کے اعلیٰ سطح کے آفیسر تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص کا کوئی معاملہ کسی سرکاری دفتر تک پہنچ جائے تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے ۔ اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اب سرکاری دفتروں کے ان گنت چکر کاٹنا پڑیں گے اور رشوت دئے بغیر کوئی معاملہ حل نہیں ہوگا ۔ اس کا خمیازہ خود سرکاری ملازموں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کسی محکمے کے ملازم کا اپنا معاملہ دوسرے محکمے میںاٹکا ہو تو وہاں کے کلرک کی کوشش ہوتی ہے کہ رشوت لئے بغیر اس کو حل نہ کیا جائے ۔ سفارش پر سفارش کے بعد بھی کلرک مین میخ نکال کر اسے بے بس بنادیتا ہے ۔ یہاں تک کہ رشوت وصول کی جاتی ہے ۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔