جمعرات کو بڈگام میں بندوق برداروں نے تحصیل آفس میں داخل ہوکر وہاں کام کررہے ایک ملازم پر گولیاں چلائیں ۔ زخمی ملازم کو نزدیکی ہسپتال لے جایا گیا ۔ وہاں اس کی نازک حالت دیکھ کر ڈاکٹروں نے سرینگر کے صدر ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا ۔ لیکن صدر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے دم توڑدیا ۔ اس طرح سے ایک اور عام شہری کی ہلاکت کا ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پوری انسانیت کو شرم سار کیا ۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات پیش آئے ۔ کئی عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا ۔ ہلاکت کی وجہ کیا تھی ۔ کس کے حکم پر گولیاں چلائی گئیں اور ہلاکتوں سے کس کو کیا فائدہ ہوا۔ آج تک معلوم نہ ہوسکا ۔ ہر ایسی ہلاکت کے موقعے پر استفسار کیا گیا کہ ہلاکت کی وجہ بتائی جائی ۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا ۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکت کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے اور عوامی ردعمل سامنے آنے کے خوف سے ان ہلاکتوں کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہلاکتیں آج تک معمہ بنی ہوئی ہیں ۔آگے بھی یہی صورتحال رہی تو اس سے خوف و ہراس کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔
بڈگام میں راہول بٹ نامی جس ملازم کو ہلاک کیا گیا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی سادہ اور شریف آدمی ہونے کے علاوہ سائلوں کے لئے کافی مدد گار تھا ۔ دفتر کے اندر اور باہر لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتا تھا ۔ اس ہلاکت سے پنڈت خاندانوں کے اندر سخت تشویش پیدا ہوگئی ۔ کشمیر میں مقیم پنڈت گھرانوں نے کئی جگہوں پر احتجاج کرتے ہوئے اس ہلاکت پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ایسی وجوہات کا سبب بتایا جائے ۔ اس کے علاوہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے راہول بٹ کی ہلاکت کی مزمت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ بہت جلد مجرموں کا پتہ لگاکر انہیں انجام تک پہنچایا جائے گا ۔ا دھر بہت سے سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس ہلاکت کی مزمت کی ۔ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے لیڈروں نے اس ہلاکت پر صدمے کا اظہار کیا ۔ پی ڈی پی کی طرف ست جاری کئے گئے بیان میں پنڈت ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا ۔ پی سی چیرمین سجاد لون کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ کشمیری پنڈت کی ہلاکت کشمیر دشمنی کا قدم ہے ۔ انہوں نے اس واقعے کی مزمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک واقع قرار دیا ۔ اس ہلاکت پر مزمتی بیانات کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور سیاسی ، مذہنی اور سماجی حد بندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ہلاکت کی بڑے پیمانے پر مزمت کی گئی ۔ بیانات کی ضرورت اپنی جگہ ۔ لیکن ایک بات کا ادراک ضروری ہے کہ صرف بیان بازی کافی نہیں ۔ ایک طرف بیانات میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف ہلاکتوں کا بھی سلسلہ جاری ہے ۔ بلکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ صرف بیانات دینے سے ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے ۔ ایسا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔ یہ کشمیری پنڈتوں کا ہی کلیجہ ہے جو ایسی صورتحال کے اندر یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور سخت خوف کے باوجود وادی سے ترک سکونت پر آمادہ نہیں ہیں ۔ ان کی جرات اور ہمت کو سلام کیا جانا چاہئے ۔ پچھلے کئی ہفتوں سے سیکورٹی فورسز نے ایک بار پھر ملی ٹنٹوں پر دبائو بڑھادیا ہے ۔ روز ملی ٹنٹوں کے گھیرے میں آنے اور ان کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آتی ہیں ۔ جب بھی اس طرح کی صورتحال بنتی ہے تو عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دبائو کو کم کرنے یا لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے عام شہریوں کو ہلاک کیا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے کشمیر میں بڑی نازک صورتحال بنی ہہوئی ہے ۔ اگرچ یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے ۔ بلکہ پچھلی تین دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ تاہم سرینگر اور اس کے مضافات میں جس طرح سے عام شہریوں کو مارا جاتا ہے یہ بڑی معنی خیز صورتحال ہے ۔ خاص طور سے کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت پر بڑا ہی تعجب کیا جاتا ہے ۔ یہ پنڈت گھرانے کشمیری شہریوں کے ساتھ بڑے قریبی اور دوستانہ تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے حوالے سے آج تک کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ۔ دونوں طبقے پوری ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے ہیں ۔ یہاں کے مسلمان شہری برابر دبائو ڈالتے رہے ہیں کہ پنڈت مہاجر جلد از جلد اپنے گھروں کو لوٹ آئیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو یقین دلایا جائے کہ کشمیر میں ان کا جان و مال محفوظ ہے ۔ لیکن پچھلے ایک سال کے دوران جس طرح وقفے وقفے سے ہلاکتوں کا سلسلہ چلایا گیا اس سے کشمیری پنڈتوں کو واپس لانے کی کوششیں آگے بڑھانا مشکل ہے ۔ تازہ ہلاکت نے ایسی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔