راہول بھٹ اورپلوامہ میں پولیس اہلکار کو گولیاں مار کر ہلاک کئے جانے کے بعد وادی میں سخت تنائو پایا جاتا ہے ۔ کشمیری پنڈتوں نے پہلی بار سڑکوں پر آکر سخت احتجاج کیا ۔ اس احتجاج کو کمزور بنانے کے لئے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا ۔ پولیس کاروائی پر انتظامیہ نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ کشمیر میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے لیفٹنٹ گورنر سے ملاقات کرکے یقین دلایا کہ اس موقعے پر سیاسی جماعتیں انتظامیہ کے ساتھ کھڑا ہیں ۔ اس دوران کئی حلقوں کے اندر اس بات پر بحث چھڑ گئی ہے کہ ان ہلاکتوں کا مقصد کیاہے اور فائدہ کس کو پہنچ سکتا ہے ۔ فوج کے لیفٹنٹ جنرل کا کہنا ہے کہ یہ محض ملی ٹنسی کو زندہ رکھنے کے لئے کیا جارہاہے ۔ یہ بات اہم ہے کہ ایک ایسے موقعے پر جبکہ ملی ٹنٹ ہلاکتوں میں اضافہ ہورہاہے تو عام شہریوں کے مارے جانے کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ملی ٹنٹ اس طرح سے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کررہے ہوں ۔ لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ تشدد کے ایسے واقعات سے ملی ٹنسی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کا کمزور ہونا یقینی ہے ۔ یہاں کے عوام نے پہلے اس طرح کی ہلاکتوں کو پسند کیا نہ آج اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کی رائے کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے ۔ پنڈتوں کے احتجاج میں مقامی لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ کشمیری پنڈتوں کے لیڈر بروقت کوشش کرتے تو یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ اکثریتی برادری کی بڑی تعداد ان کے شانہ بشابہ سڑکوں پر آجاتی اور ہلاکتوں کی مزمت کرتی ۔ پہلے بھی ایسی ہلاکتوں کے واقعات پیش آئے تو عام لوگوں نے حمایت کرنے کے بجائے ایسی ہلاکتوں کے خلاف آواز اٹھائی ۔ اس بات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی ہلاکتوں ، صحافتی تشدد ، غیر مسلموں پر تشدد اور عام شہریوں کو مارے جانے کی کشمیر میں کبھی حمایت نہیں کی گئی ۔ بلکہ یہی چیزیں ملی ٹنسی کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے کا باعث بنیں ۔ انتظامیہ اس بات کا کئی بار اعتراف کرچکی ہے کہ عام کشمیری ہلاکتوں کے حق میں نہیں ہیں ۔ ملی ٹنسی پر دبائو بڑھ جانے کے ہر موقعے پر عام شہریوں کو ہلاک کئے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ اس وجہ سے کسی حلقے کو فائدہ پہنچتا ہے کہ نہیں ۔ لیکن کشمیری لوگ اور کشمیریت ضرور بدنام ہوجاتی ہے ۔ اس وجہ سے نہ صرف کشمیری لوگ بلکہ مسلمان اور اسلام بھی تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے اسلام پر حرف آنا یقینی ہے ۔
ماضی میں کئی بار عام شہریوں کو نشانہ بناکر انہیں ہلاک کیا گیا ۔ بلکہ آج کی نسبت زیادہ تعداد میں لوگوں کو مارا گیا ۔ اس کے باوجود کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا ۔ بلکہ کشمیری جس پستی کا شکار نظر آتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی لاکتیں رہیں ۔ چند خود غرض عناصر ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بالآخر نتیجہ یہی سامنے آتا ہے کہ کشمیری نقصان میں رہتے ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کشمیریوں کے ایسے موقعوں پر جذبات کو اہمیت دی گئی نہ منظم کرنے کا موقع دیا گیا ۔ ضلعی انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ عام لوگوں کو آواز نکالنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ ہر ڈپٹی کمشنر کی کوشش ہوتی ہے کہاپنا عہدہ بحال رکھا جائے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان ہلاکتوں کی مزمت کریں اور آوازاٹھائیں ۔ لیکن ایسا نہیں کرپاتے ہیں ۔ یہ صرف سیکورٹی حلقوں کا کام نہیں ہے کہ ایسی ہلاکتوں کو دبانے کے لئے زور لگایا جائے ۔ بلکہ زمینی سطح پر لوگوں کو منظم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ جنوبی کشمیر میں چند علاقوں میں ملی ٹنسی کے موجود ہونے کا سبب یہی ہے کہ وہاں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو انتظامی سطح پر توڑ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ وہاں کی سیول انتظامیہ بند کمروں میں میٹنگیں کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرتی ہے ۔ لیکن لوگوں کو اعتماد میں لینے کے ہنر سے واقف نہیں ہے ۔ سیکورٹی فورسز اپنے تجربے اور کوششوں سے اس پر قابو پالیتے ہیں ۔ کریڈٹ سیول انتظامیہ لیتی ہے ۔ اور بدنامی عام کشمیریوں کی ہوجاتی ہے ۔