جموں کشمیر انتظامیہ نے یہ بات واضح کی ہے کہ رہبر اسکیم کے تحت کام کررہے ملازمین کو برخاست نہیں کیا جائے گا ۔متعلقہ ملازمین کے اندر پھیلی تشویش کو دور کرتے ہوئے انتظامیہ نے یقین دلایا کہ اس حوالے سے سامنے آئی خبر کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ محکمہ زراعت ، سپورٹس اور دوسرے کئی محکموں میں کام کررہے ایسے ملازمین نے سرینگر میں زبردست احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسکیم کے تحت کام کررہے ملازمین کے حقوق بحال رکھیں جائیں ۔ اس سے پہلے کہا جارہاتھا کہ حکومت ایسے تمام عارضی ملازمین کو برخاست کرکے مستقل بنیادوں پر تقرریاں کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے ۔ اس وجہ سے کئی سو ملازمین کے اندر تشویش پیدا ہوگئی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ ان کی چھٹی کرکے نئی بھرتیاں عمل میں لائی جارہی ہیں ۔ اب حکومت کی طرف سے دئے گئے بیان میں ایسی خبر کو محض افواہ قرار دیتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ رہبر زراعت ، رہبر کھیل اور NYC اسکیموں کے تحت کام کررہے اہلکاروں کو ہرگز برخاست نہیں کیا جائے گا ۔
جموں کشمیر حکومت نے کئی سال پہلے مالی اخرجات کو کم کرنے کے لئے عارضی تقرریاں عمل میں لائیں ۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ ریکریوٹمنٹ بورڈ بروقت تقرریاں کرنے میں ناکام رہاہے ۔ ایسی تقرریوں کے لئے جو ضابطے بنائے گئے ہیں اس وجہ سے تقرریوں کے عمل میں کافی وقت لگتا ہے ۔ اس دوران دفتروں میں کام متاثر ہوتا ہے اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے کئی محکموں میں عبوری تقرریاں عمل میں لائی گئیں ۔ خاص طور سے محکمہ زراعت میں ایسے کئی سو افراد کو تعینات کیا گیا جنہوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسناد حاصل کرکے بے کار بیٹھے تھے ۔ اسی طرح فزیکل ایجوکیشن کے مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بے کار بیٹھے تھے ۔ سرکار فزیکل ایجوکیشن کے مضمون کو ہائر سیکنڈری لیول پر متعارف تو کراچکی تھی لیکن بنیادی سطح پر اس کی باضابطہ تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا ۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے کم اخراجات پر تقرریاں عمل میں لائی گئیں ۔ یورپ اور کئی خلیجی ممالک میں اس طرح کی تعیناتیوں کا رواج بہت پہلے سے ہے ۔ اس سے حکومت کو اخرجات کا کم بوجھ اختیار کرنا پڑتا ہے اور کام بھی متاثر نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن برصغیر میں اس طرح کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی ہے ۔ جموں کشمیر میں سرکاری نوکری واحد ذریعہ آمدن ہونے کے علاوہ انتہائی آرام دہ کام سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں بغیر کسی محنت و مشقت کے ماہانہ مقررہ رقم حاصل ہوتی ہے ۔ بلکہ بیشتر محکموں میں بغیر کوئی کام کئے تنخواہ بینک اکائونٹ میں جمع ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کسی بھی دوسرے کام کو ترک کرکے سرکاری نوکری کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہاں سرے سے کسی قسم کی جوابدہی کا کوئی عمل موجود نہیں ہے ۔ کام کرنے اور پورا دن سوئے رہنے والا دونوں ایک ہی درجے اور حیثیت کے مالک ہیں ۔ کسی سے کوئی باز پرس نہیں ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ سرکاری ملازم بڑی آسانی سے ملازمت کے ساتھ ساتھ تجارت اور دوسرے چھوٹے بڑے کام آسانی سے کرسکتا ہے ۔ اس طرح سے ایسا شخص دو تین ذرایع سے آمدنی حاصل کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی تنخواہ کے عوض سرکار کو اعلیٰ درجے کی اسناد رکھنے والے اہلکار میسر آتے ہیں ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لالچوک میں ہڑتال کرنے والے نوجوان دو ڈھائی ہزار کی تنخواہ چھوٹ جانے پر سخت واویلا کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان ملازمین کا خیال ہے کہ انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر مستقل ملازمت دی جائے گی ۔ یہاں الٹا معاملہ پیش آیا ۔ بتایا گیا کہ سرکار ایسے تمام ملازمین کی چھٹی کرکے نئے سرے سے تعیناتیاں کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے ۔ اس وجہ سے ایسے ملازم حلقوں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی اور ان کی بڑی تعداد نے سرینگر کی سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع کیا ۔ ایسے ملازموں کے اہل خانہ بھی سخت مایوس بتائے جاتے ہیں ۔ ان ملازمین کو چاہئے کتنی بھی کم تنخواہ مل رہی ہے تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ان کا شمار بے کار نوجوانوں میں نہیں ہوتا ہے ۔ ایسے نوجوان منشیات کے عادی نہیں اور غیر قانونی کاموں سے بچے رہتے ہیں ۔ حکومت نے اس سے پہلے نصف لاکھ رہبر تعلیم کو باضابطہ نوکریاں فراہم کرکے اس مسئلے پر قابو پالیا ۔ خیال تھا کہ رہبر کھیل اور رہبر زراعت کے علاوہ تما م عارضی ملازموں کو مستقل کرکے انہیں ذہنی پریشانیوں سے نجات دلائی جائے گی ۔ عام لوگ اسی امید کے سہارے جی رہے ہیں ۔