پچھلے دنوں اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا گیا کہ تحصیل دفتروں میں کوئی بھی آف لائن درخواست وصول نہیں کی جائے گی ۔ سرکار کی طرف سے مبینہ طورایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں تحصیل دفتروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آف لائن کسی بھی درخواست کو قبول نہ کریں ۔ اس کے بجائے اسی درخواست پر کاروائی کریں جو آن لائن پیش کی جائے گی ۔ ای سروس کو مضبوط بنانے کے لئے اس طرح کا قدم اٹھایا گیا ہے ۔ یہ قدم ایک ایسے مرحلے پر اٹھایا گیا جبکہ ڈیجیٹل سروس کا ہفتہ پورے ملک میں منایا جارہاہے ۔ ضلعی صدر مقامات کے علاوہ دوسرے علاقوں میں اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ ان تقریبات میں کئی محکموں کی طرف سے عام لوگوں کو یہ سمجھا گیا کہ آن لائن طریقہ اختیار کرکے کس طرح سے مختلف اسکیموں کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ جموں کشمیر بینک کے علاوہ باغبانی ، زراعت ، خوراک اور دوسرے کئی محکموں نے اپنے صارفین کو رائج اسکیموں کا تعارف کرایا ۔ اس دوران لوگوں کو بتایا گیا کہ گھر میں موبائل فون کا استعمال کرکے کس طرح سے سرکاری سہولیات کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔
ای سروس کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات بڑے حوصلہ افزا ہیں ۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس طرح کی تکنیکی سہولیات کا عوام کو فائد ہ ہوگا یا نقصان ۔ تحصیل آفسوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہاں کمپیوٹر کا استعمال کرنے والوں کا فقدان ہے ۔ سب سے تعجب اس وقت ہوا جب پٹواریوں نے جمعبندی کے حوالے سے ڈیجی ٹائزیشن کرنے سے انکار کیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے پٹواریوں کو اس کام کے لئے چھے مہینے کی ٹریننگ دی گئی ۔ لیکن انہوں نے کام کرنے سے صاف انکار کیا ۔ بعد میں سرکاری اسکولوں سے اساتذہ اٹھاکر اس کام پر لگائے گئے ۔ جہاں پٹواری کمپیوٹر کو ہاتھ لگانے سے انکار کریں اور اعلانیہ کہہ دیں کہ وہ اس سے نابلد ہیں ۔ وہاں تحصیلداروں سے کہنا کہ اپنے دفتر میں آن لائن سسٹم رائج کریں ، عوام کے ساتھ بڑا مزاق ہے ۔ جب تحصیل آفس میں کام کرنے والا کوئی ملازم کمپیوٹر کے استعمال سے ناواقف ہے تو اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ دوردراز مقام پر رہنے والی دیہاتی اپنی درخواست آن لائن بھیجنے میں کس قدر مشکلات سے دوچار ہوگا ۔ اس طرح کے کسی بھی شہری کو اپنی درخواست پیش کرانے کے لئے دوسروں کی منت سماجت کرنا ہوگی ۔ یہ صرف منت سماجت کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ استحصال کا معاملہ ہے ۔ ایسی صورت میں ایک تو سائل سے پیسے وصول کئے جائیں گے دوسرا صحیح بات حکام تک پہنچ نہیں پائے گی ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں حکام ایک ایسا ماحول بنارہے ہیں جہاں عام شہری کے مفاد کو مدنظر رکھنے کے بجائے اپنی ڈفلی بجائی جارہی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ عوامی خدمت کے عہدوں پر کام کرنے والے حکام درخواست سے مسئلہ سمجھنے کے بجائے زبانی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ درخواست ملنے کے بعد سائل کو زبانی اپنی کہانی سنانے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود یہ حکم دینا کہ آن لائن درخواستوں پر ہی کاروائی ہونی چاہئے بہت ہی مشکل فیصلہ ہے ۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے دو سالوں کے دوران کئی جگہوں پر ای سروس کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ۔ اس سروس کو سب سے زیادہ شکایتیں درج کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایسی بیشتر شکایات فرضی اور من گھڑت ہوتی ہیں ۔ کسی بھی سرکاری ملازم سے کوئی ذاتی دشمنی ہو یا جائداد کا تنازع ہو تو کھٹ آن لائن شکایت درج کیجئے ۔ پھر اعلیٰ حکام آگے دیکھتے ہیں نہ پیچھے ۔ بلکہ ہر ایسی شکایت کو جائز سمجھ کر تحقیقاتی کمیٹی بناتے ہیں ۔ ایسی کسی بھی شکایت کو تحقیقات کے بعد صحیح نہیں پایا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شکایت غلط ثابت ہونے پر شکایت کنندہ کو سزا دی جاتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ اب گھر گھر شکایتی مرکز قائم کرکے فرضی اور جعلی شکایات کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ اس وجہ سے زکایات کا انبار لگنے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔ ایسے شکایتی مراکز پر زیاد ہ تر بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایات درج کی جاتی ہیں ۔ اس طرح سے سرکار کا کون سا نظام درست ہوگا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ یہ ای سروس کا منفی پہلو ہے ۔ تام بہتر طریقے سے چلایا جائے تو فائدوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
