کشمیر کی پنڈت برادری نے ایک ایسے موقعے پر جنم اشٹمی کا تہوار منایا جب وہ گولیوں کے نشانے پر ہیں ۔ کچھ ہی روز پہلے شوپیان میں ایک پنڈت خاندان پر حملہ کیا گیا ۔ حملے میں ایک شخص ہلاک اور اس کا بھائی زخمی ہوگیا زخمی شخص ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہے ۔ اس کے باوجود پنڈتوں نے جنم اشٹمی کا تہوار پورے جوش وخروش سے منایا ۔ اس موقعے پر انہوں نے پوجا پاٹ کی کئی مجالس کے علاوہ سرینگر کے لالچوک علاقے میں جلوس نکالا ۔پنڈتوں میں پایا جانے والے خوف تاحال موجود ہے ۔پچھلے ایک سال کے دوران ایسی کئی ہلاکتیں پیش آئیں ۔تازہ واقع شوپیان میں پیش آیا ۔ شوپیان میں پیش آئے واقعے پر انتظامی اور سیاسی حلقوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ بلکہ اکثریتی برادری نے بھی پنڈت فیملی پر کئے گئے حملے پر سخت دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔وہاں رہنے والے اکثریتی برادری کے لوگوں نے اس حملے کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ۔ شوپیان میں پیش آئے واقع سے پہلے بڈگام میں کئے گئے اسی طرح کے حملے میں ایک شخص کو زخمی کیا گیا ۔ پولیس نے کئے گئے دونوں حملوں میں ملی ٹنٹوںکے ہاتھ ہونے کا اشارہ دیا ہے اور دعویٰ کیا کہ بہت جلد حملہ آوروں کی نشاندہی کی جائے گی ۔
سیکورٹی فورسز کی طرف سے ملی ٹنٹوں پر دبائو بڑھائے جانے کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے درجنوں واقعات پیش آئے ۔ حفاظتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملی ٹنٹ اب کوئی بڑا حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں ۔ یہی وجہ کہ آسان حدف تلاش کرکے اپنے وجود کو بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شوپیان اور بڈگام میں کئے گئے حملے اس وقت سامنے آئے جبکہ ملک کے ساتھ جموں کشمیر میں یوم آزادی پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا ۔ اس دوران سرکار کی کوشش رہی کہ اسکولی بچوں کو یوم آزادی پر منائے جانے والے جشن میں شامل کیا جائے ۔ سرکار اس میں بہت حد تک کامیاب رہی ۔ اس دوران ایل جی نے بیان دیا کہ ملی ٹنسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی کاروائی کا آغاز کیا جارہاہے ۔ یہ ملی ٹنٹوں کے لئے ایک ؓرا چیلنج سمجھا جاتا ہے ۔ ملی ٹنٹوں نے کشمیری پنڈتوں پر حملہ کرکے اپنی موجودگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی ۔ سرکار اسے ملی ٹنٹوں کی بوکھلاہٹ سے تعبیر کررہی ہے ۔ سرکاری فورسز نے یقین دلایا ہے کہ حملوں میں ملوث نوجوانوں کو تلاش کرکے بہت جلد انجام کو پہنچایا جائے گا ۔ یہ کوئی مشکل اور ناممکن بات نہیں کہ اس کاروائی میں ملوث نوجوانوں کو کچھ دنوں کے اندر ہلاک کیا جائے گا ۔ اس سے پہلے کئی بار ایسا ہی دیکھنے کو ملا ۔ سیکورٹی فورسز کو لوگوں کی طرف سے جو تعاون مل رہاہے اس کے پیش نظر یہ بات عجیب نہیں کہ ملی ٹنٹوں کو بہت جلد مارا جائے گا ۔ خاص طور سے عام شہریوں کو مارا جانا کوئی طبقہ پسند نہیں کرتا ہے ۔ جو لوگ ملی ٹنٹوں کے ہمدرد بھی رہے ہیں وہ بھی ایسی ہلاکتوں کو پسند نہیں کرتے اور کھل کر ایسی کاروائی کی مذمت کرتے ہیں ۔ ایسے حملوں میں ملوث جنگجووں کو تلاش کرنے میں عوام ضرور مدد کریں گے ۔ ایسی ہلاکتیں ملی ٹنٹوں کی نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کی کامیابی کا وجہ بنتی ہیں ۔ تاہم اس حوالے سے یہ بات بری عجیب ہے کہ نوجوان ایسی ہلاکتوں کو انجام دینے کے لئے کیسے تیار ہوتے ہیں ۔ اس طرح سے خون بہانا یہاں کے مزاج اور کلچر کے خلاف ہے ۔ وجہ کچھ بھی ہو ایسی ہلاکتوں پر قابو پانا ضروری ہے ۔ نشانہ بنائی گئی فیملی نے اس حملے کے حوالے سے انتظامیہ پر انگلی اٹھائی ہے اور الزام لگایا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ۔ واقعات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ نے اس طرح کا سارا بوجھ پولیس کے کندھوں پر ڈالا ہے اور خود خواب خرگوش میں مست ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات بار بار پیش آتے ۔ یہ پولیس کی منت ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر کام کرکے لوگوں کی سیکورٹی کو ممکن بنارہی ہے ۔ پنڈتوں کا الزام ہے کہ مقامی انتظامیہ ان کے مسائل جاننے کو تیار نہیں ہے ۔ یہ بڑی تشویش کی بات ہے ۔ پنڈتوں کے جان و مال کی حفاظت انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔ پولیس اور عام شہری پنڈتوں کی حفاظت کے لئے فکر مند ہیں ۔ ضلعی انتظامیہ کو کاغذی کاروائی کے بجائے عملی اقدامات کی کوشش کرنی چاہئے ۔
