پہلے پولیس ڈپارٹمنٹ میں آفیسروں کی بھرتی فہرست منسوخ کی گئی ۔ ان بھرتیوں کے لئے جو تحریری امتحان لیا گیا تھا کہا جاتا ہے کہ اس میںبڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں ۔ ان دھاندلیوں میں ملوث افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون جاری ہے ۔ کشمیر سے باہر کئی عناصر کو ملزم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کاروائیاں کی جارہی ہیں ۔ کئی درجن جگہوں پر چھاپے ڈال کر ثبوت اکٹھے کئے گئے ۔ ابھی تک تحقیقات جاری ہے ۔ اس دوران کہا جاتا ہے کہ اکائونٹس اسسٹٹوں اور جل شکتی محکمے میں انجینئروں کی بھرتیوں کا عمل بھی منسوخ کیا جارہا ہے ۔ پولیس بھرتیوں میں دھاندلیاں منظر عام پر آنے کے بعد دوسری تقرریوں کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ کمیٹی نے ان تقرریوں کے حوالے سے سخت خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ اندازہ ہے کہ بہت جلد فیصلہ لے کر حقیقت سامنے آئے گی ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری محکموں میں تقرریوں کے حوالے سے گوٹالوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس پر عوامی حلقوں خاص کر بے روزگار نوجوانوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔قابل اور اہل امیدوراوں کا کہنا ہے کہ ایسے اسکنڈلوں کے سامنے آنے کے بعد وہ مایوسی کا شکار ہیں ۔
جموں کشمیر تین سالوں سے زائد عرصے سے براہ راست مرکزی سرکار کے کنٹرول میں ہے ۔ اس دوران جو بھی فیصلے لئے گئے دہلی کے ایوانوں میں لئے گئے ۔ یقین دلایا گیا کہ کشمیر میں مقامی سیاسی حلقوں کی بے جامداخلت سے سرکاری دفتروں میں جو ناقص نظام کار پایا جاتا تھا اس کو بہتر بنایا جائے گا ۔ مرکزی سرکار کے بڑے بڑے نیتا رشوت سے پاک اور اقربا نوازی سے دور نظام قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ مئے نظام کے تحت انہیں سیاسی استحصال سے نجات مل جائے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے یہاں ہر معاملے میں سیاست دانوں کی مداخلت کی وجہ سے عوام کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا تھا ۔ مرکز سے ملنے والے فنڈس کے خرد برد کے علاوہ رشوت ستانی کا بازار گرم تھا ۔ 2019 کے بعد خیال کیا جاتا تھا کہ سرکاری دفتروں میں نظام کار تبدیل ہوکر عوام دوست نظام قائم ہوگا ۔ لیکن یہ سب امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب کئی محکموں میں تقرریوں میں عیاں طور کی گئی دھاندلیاں سامنے آئیں ۔ پہلے فائر سروس میں کی گئی بھرتیوں میں کی گئی دھاندلیاں سامنے آئیں ۔ اس حوالے سے ٹھوس ثبوت سامنے آنے کے باوجود سرکار نے ایک نہ سنی اور دھاندلیوں سے بھری تقرریوں کو جائز قرار دیا ۔ اسی طرح جموں کشمیر بینک میں کی گئی بھرتیاں مبینہ طور ایک بڑا گوٹالہ تھا ۔ اس حوالے سے بھی من پسند طریقہ اختیار کرکے واضح جانبداری سے کام لیا گیا ۔ یہاں تک کہ پولیس میں آفیسروں کی بھرتیوں کا عمل مکمل ہوا ۔ حتمی فہرست سامنے آتے ہی اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔ کچھ دنوں کے اندر یہ بات ثابت ہوئی کہ اس اہم پوسٹ پر کی گئی تقرریوں کو لے کر بھی دھاندلیاں کی گئی ہیں ۔ بلکہ امتحانی پر چے امتحان سے پہلے لیک ہونے کا انکشاف کیا گیا ۔ انتظامیہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور کئی ملوث افراد اور اداروں کو دھر لیا ۔ معنی خیز بات یہ ہے کہ ابھی تک اس میں ملوث بڑے بڑے سرکاری آفیسروں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کاروائی نہیں کی گئی ۔ حکومت اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو کیا چیز آڑے آرہی ہے پتہ لگانا مشکل ہے ۔ یہاں یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ہر تقرری عمل کے پیچھے کچھ ایسے ہاتھ پائے جاتے ہیں جو داغ دار ہیں ۔ ان ہاتھوں کو کاٹنے میں جتنی دیر لگائی جائے گی اتنا نظام کار متاثر ہوتا رہے ۔ دوسری طرف یہ بات زیادہ عجیب ہے کہ بڑے بڑے آفیسر رشوت لینے سے باز نہیں آتے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی آفیسر کو رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے نہ پکڑا جاتا ہے ۔ یہ بڑے بڑے آفیسروں کی حالت ہے کہ دس بیس ہزار رشوت لینے میں شرم محسوس کرتے نہ پکڑے جانے کا خوف لاحق ہے ۔ عام لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ہے جہاں رشوت کا لین دین نہیں ہوتا ۔ پہلے یہ کارستانی صرف انجیئنرنگ ڈپارٹمنٹوں اور ریونیو محکمے تک محدود تھی ۔ اب ہر جگہ اور ہر ہاتھ اس میں ملوث ہے ۔ ایسے سینئر آفیسر جو دو تین لاکھ روپے تنخواہ پاتے ہیں دس بیس ہزار کی رشوت لینے سے نہیں کتراتے ۔ اس بات کے باوجود کہ ان کے آس پاس رشوت ستانی ادارے کاروائی کررہے ہیں کوئی اہلکار رشوت لینے سے انکار نہیں کرتا ۔ صاف ظاہر ہے کہ سرکاری دھمکیوں اور احکامات سے کوئی خوف نہیں کھاتا ۔ خوف صرف عام شہریوں تک محدود ہے ۔ سرکار ابھی تک اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔
