الیکشن کمیشن کی طرف سے دئے گئے حالیہ بیان سے سیاسی حلقوں میں سخت ہلچل پائی جاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پچھلے دنوں بیان دیا گیا کہ جموں کشمیر میں اگلے انتخابات سے پہلے ووٹر فہرستوں کی نظر ثانی کی جائے گی اور 25 لاکھ کے آس پاس نئے ووٹر شامل کئے جائیں گے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ کشمیر میں مقیم دوسری ریاستوں کے باشندے ووٹر فہرستوں میں اپنا نام شامل کرسکتے ہیں ۔ غیر مقامی باشندوں کو جموں کشمیر میں ووٹ ڈالنے کے اس حق پر کئی سیاسی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان کیا ۔ گپکار الائنس جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں سوموار کو اس حوالے سے کل جماعتی میٹنگ بلاکر اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ میٹنگ میں کانگریس کے علاوہ شیو سینا کے نمائندے نے بھی شرکت کی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایسی میٹنگ میں شیوا سینا کی طرف سے شمولیت کی گئی ۔ تاہم پیوپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی نے کل جماعتی میٹنگ میں شامل ہونے سے انکار کیا ۔ دونوں جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے دئے گئے بیان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اس کے باوجود دونوں پارٹیوں نے گپکار الائنس کے اجلاس میں شامل ہونے سے انکار کیا ۔ اس طرح سے جموں کشمیر میں دوسری ریاستوں سے آئے اور یہاں مقیم شہریوں کو ووٹ دینے کے حق پر کوئی مشترکہ محاذ نہیں بنایا جاسکا ۔ البتہ بی جے پی کی طرف سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سراہا گیا اور اس فیصلے کا دفاع کرنے کے لئے پارٹی لیڈروں نے بیانات جاری کئے ۔ بی جے پی کے جموں کشمیر یونت کے کئی لیڈروں نے اس فیصلے کو ملک کے آئین کے مطابق فیصلہ قرار دیا ۔
دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں کشمیر کے سیاسی ماحول پر واضح اثرات پڑنا کوئی نئی بات نہیں ۔ اس دفعہ کے آئین سے حذف کئے جانے کے بعد ملک کے کسی بھی شہری کو یہاں رہنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا اسی طرح سے حق ہے جس طرح ملک کے کسی بھی علاقے میں کردار ادا کیا جاسکتا ہے ۔ جموں کشمیر کے اندر پچھلے ستھر سالوں کے بعد اس طرح کے نظام کے وجود میں آنے کا یہ پہلا موقع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر تعجب کا اظہار کیا جارہاہے ۔ مرکزی سرکار کی طرف سے واضح کیا گیا کہ غیر کشمیری شہریوں کو ووٹ دئے جانے کے حق سے یہاں کے مذہبی تشخص یا آبادی کے نظام کو تبدیل کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ تاہم کئی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس اقدام سے یقینی طور یہاں کی ڈیمو گرافی تبدیل ہوجائے گی ۔ اس کے باوجود یہ بات حیران کن ہے کہ عوام کی طرف سے کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ۔ عوام سخت مایوس ہونے کے باوجود کسی قسم کے ردعمل سے پرہیز کررہے ہیں ۔ شاید یہی وجہ کہ سیاسی لیڈروں نے بھی بند کمروں کی میٹنگوں اور اخباری بیانات پر ہی اکتفا کیا ۔ پی سی کے سربراہ سجاد لون نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے اور دہلی میں دھرنا دینے کی بات کی ۔ اس دوران انہوں نے جموں کشمیر میں اس کے خلاف کوئی مم چلانے کی دھمکی نہیں دی ۔ ظاہر ہے کہ عوامی ردعمل کی کوئی تحریک چلانا سیاسی لیڈروں کے بس کی بات نہیں ۔ پچھلی تین دہائیوں خاص کر پچھلے تین سالوں سے یہاں کے عوام کسی بھی سیاسی لیڈر کے پروگرام کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان لیڈروں کو عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں ۔ پچھلے تیس سالوں کے دوران جب بھی کوئی چھوٹے یا بڑے پیمانے کے انتخابات ہوئے تو عوام نے روایتی سیاسی حلقوں کے حمایت میں ووٹ دئے ۔ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور پی سی تینوں سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔آج بھی اسی طرح کا سیاسی رجحان پایا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود عوام ان جماعتوں کے کسی پروگرام کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ۔ عوام کے اس طرح کے سوچ کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ نوجوان طبقہ یہ جان چکا ہے کہ ردعمل یا توڑ پھوڑ سے اصل حقایق کو بدلا نہیں جاسکتا ہے ۔ دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کے بعد جو اثرات پڑنے والے ہیں نوجوان اس سے پوری طرح سے واقف ہیں ۔ بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے فیصلے گپکار میں میٹنگوں اور نلالچوک یا دہلی میں دھرنا دینے سے نہیں بدلے جاسکتے ہیں ۔
