• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home اداریہ

جرائم کم کیوں نہیں ہورہے ؟

Online Editor by Online Editor
2022-09-06
in اداریہ
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail

تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر جرائم کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ جرائم اترپردیش میں ہوئے جبکہ میگھالیہ میں جرائم کی رفتار سب سے کم ہے ۔ عورتوں پر تشدد کے سب سے زیادہ معاملات آسام میں پیش آئے جبکہ بچوں پر ہوئی زیادتیوں کے واقعات مدھیہ پردیش میں سامنے آئے ہیں ۔ اسی طرح سے دوسرے حصوں میں بھی جرائم کا گراف اوپر کی طرف بڑھ رہاہے ۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے آسام عورتوں پر تشدد جیسے جرائم میں پہلے نمبر پر آتا رہاہے ۔ ایسے جرائم ملک کے کسی اور حصے میں اتنی تعداد میں نہیں ہوتے ۔ آسام میں اس طرح کے جرائم روز ہوتے رہتے ہیں اور ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی صورتحال کس قدر خوفناک ہے ۔
حکومت سخت کوشش کررہی ہے کہ ملک میں امن و امان کا ماحول پیدا ہوجائے اور جرایم کی رفتار کم یونے لگے ۔ اس غرض سے پولیس کے علاوہ دوسری کئی ایجنسیاں سامنے لائی گئی ہیں تاکہ جرائم پیشہ افراد کو قابو میں کیا جاسکے ۔ پولیس کو اس حوالے سے خصوصی اختیارات دئے گئے ۔ عدالتوں کو بھی جرائم پیشہ افراد سے سختی سے نمٹنے کے لئے نئے قانون بنائے گئے ۔ اس کے باوجود جرائم پر رتی برابر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اب چور لفنگے یا ایسے ہی غنڈے جرم نہیں کرتے ۔ بلکہ سماج میں شریف اور عزت دار سمجھے جانے والے لوگ بھی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ خواتین کے ساتھ جس طرح کا رویہ جھگی جھونپڑیوں میں بسنے والے کرتے ہیں ۔ اسی طرح عزت دار گھرانوں میں ان سے سلوک کیا جاتا ہے ۔ عورتوں پر یہ ظلم ہر طبقے میں روا رکھا جارہاہے ۔ جرائم بڑھنے کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران کووڈ وبا کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں قید رہنا پڑا ۔ اس وجہ سے ذہنی تنائو بڑھ گیا اور لوگوں کے مزاج بدل گئے ۔ لوگ تشدد پسند بن گئے ۔ ایسے حالات میں ایسا ہونا ایک قدرتی بات ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کئی ادارے موجود ہونے کے باوجود جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں ہو رہاہے ۔ اب لوگ ایسے جرائم میں ملوث ہورہے ہیں جن کا دس بیس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ روایتی اقدار کو ترک کرکے لوگ بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں لگے ہیں ۔ اس دوڑ کو جیتنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح منشیات کے پھیلائو کی وجہ سے بھی جرائم میں اضافہ ہورہاہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے ک عمومی طور برداشت کی صلاحیت ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ صبر و حلم کا جو مادہ پایا جاتا تھا اس میں بہت حدتک کمی آگئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ جرائم کے دلدل میں آگئے ہیں ۔ یہ کوئی بنی بنائی بات نہیں ۔ کوئی افسانہ بھی نہیں ہے ۔ بلکہ سروے کرکے معلوم ہوا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جرائم میں ملوث ہورہے ہیں ۔ اعداد و شمار سے جو بات سامنے آئی ہے اس میں ہیر پھیر ہونا کوئی عجیب بات نہیں ۔ کوئی بھی سروے سو فیصد صحیح نہیں ہوتی ہے ۔ اس میں کہیں کمی اور کہیں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ البتہ بنیادی حقایق برقرار ہی رہتے ہیں ۔ حکومت ان اعداد و شمار کو یک سر مسترد کرسکتی ہے کہ اس سے حکومت کے بدنام ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ لیکن سرکاری تھانوں اور انسداد جرائم کے جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں ان کا ریکارڈ دیکھنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جرائم بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ پولیس محکمے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس افراد کی کمی ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اب ہر علاقے میںپولیس تھانے یا چوکی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہر علاقے میں جرائم قابو پانا پولیس کے بغیر ممکن نہیں رہاہے ۔ شہروں کو چھوڑ کر اب دوردراز کے دیہی علاقوں میں جرائم کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ ان علاقوں میں گائوں کے چوکیدار اور لمبردار جرائم کو روکنے کے لئے کافی سمجھے جاتے تھے ۔ گائوں کی پنچایت یا چار پانچ عمر رسیدہ لوگ اس کام کو انجام دیتے تھے ۔ ایسا کوئی تنازع سامنے آتا جس سے گائوں کا پر امن ماحول خراب ہونے کا خطرہ نظر آتا تو معزز شہری سامنے آکر اس کو قابو میں کرتے ۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ لوگ کسی کی سننے کو تیار نہیں ۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی فیصلے سناتے اور سزائیں مقرر کرتے ۔ غصے کو قابو میں کرنے کے بجائے لاٹھیاں اور بندوق لے کر مخالف فریق پر چڑھ دوڑتے ۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ تشویشناک بات ہے ۔ اس وجہ سے سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار بن رہا ہے ۔ بچوں پر تشدد کرکے ان کے باغی بن جانے کا شدید خطرہ ہے ۔ تشدد کا شکار بچے بڑھ ہوکر پورے معاشرے کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔ جرائم کا بڑھ جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

جھارکھنڈ کی ہیمنت سورین حکومت نے اسمبلی میں حاصل کیا اعتماد کا ووٹ

Next Post

قوم کا اثاثہ مُعلم

Online Editor

Online Editor

Related Posts

موسمیاتی چیلنجز اور حکومتی تیاریاں

2024-12-25

خالی ٹریجریاں

2024-12-11

بغیر آب کے آبی ٹرانسپورٹ کا خواب

2024-12-10

ایک ہی سرکار کے دو الگ الگ  اجلاس

2024-12-04

پولیس بھرتی کے لئے امتحان

2024-12-03

370 کے علاوہ مسائل اور بھی ہیں

2024-11-30

کانگریس کا اسٹیٹ ہڈ بحال کرنے پر زور

2024-11-28
دس لاکھ حجاج کیلئے حج 2022 کی تمام تر تیاریاں مکمل

حج کمیٹی نے حج 2025 کی دوسری قسط کی ادائیگی کی آخری تاریخ کا اعلان کر دیا

2024-11-28
Next Post
قوم کا اثاثہ مُعلم

قوم کا اثاثہ مُعلم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan