تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر جرائم کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ جرائم اترپردیش میں ہوئے جبکہ میگھالیہ میں جرائم کی رفتار سب سے کم ہے ۔ عورتوں پر تشدد کے سب سے زیادہ معاملات آسام میں پیش آئے جبکہ بچوں پر ہوئی زیادتیوں کے واقعات مدھیہ پردیش میں سامنے آئے ہیں ۔ اسی طرح سے دوسرے حصوں میں بھی جرائم کا گراف اوپر کی طرف بڑھ رہاہے ۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے آسام عورتوں پر تشدد جیسے جرائم میں پہلے نمبر پر آتا رہاہے ۔ ایسے جرائم ملک کے کسی اور حصے میں اتنی تعداد میں نہیں ہوتے ۔ آسام میں اس طرح کے جرائم روز ہوتے رہتے ہیں اور ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی صورتحال کس قدر خوفناک ہے ۔
حکومت سخت کوشش کررہی ہے کہ ملک میں امن و امان کا ماحول پیدا ہوجائے اور جرایم کی رفتار کم یونے لگے ۔ اس غرض سے پولیس کے علاوہ دوسری کئی ایجنسیاں سامنے لائی گئی ہیں تاکہ جرائم پیشہ افراد کو قابو میں کیا جاسکے ۔ پولیس کو اس حوالے سے خصوصی اختیارات دئے گئے ۔ عدالتوں کو بھی جرائم پیشہ افراد سے سختی سے نمٹنے کے لئے نئے قانون بنائے گئے ۔ اس کے باوجود جرائم پر رتی برابر قابو پانا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اب چور لفنگے یا ایسے ہی غنڈے جرم نہیں کرتے ۔ بلکہ سماج میں شریف اور عزت دار سمجھے جانے والے لوگ بھی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ خواتین کے ساتھ جس طرح کا رویہ جھگی جھونپڑیوں میں بسنے والے کرتے ہیں ۔ اسی طرح عزت دار گھرانوں میں ان سے سلوک کیا جاتا ہے ۔ عورتوں پر یہ ظلم ہر طبقے میں روا رکھا جارہاہے ۔ جرائم بڑھنے کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران کووڈ وبا کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں قید رہنا پڑا ۔ اس وجہ سے ذہنی تنائو بڑھ گیا اور لوگوں کے مزاج بدل گئے ۔ لوگ تشدد پسند بن گئے ۔ ایسے حالات میں ایسا ہونا ایک قدرتی بات ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کئی ادارے موجود ہونے کے باوجود جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں ہو رہاہے ۔ اب لوگ ایسے جرائم میں ملوث ہورہے ہیں جن کا دس بیس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ روایتی اقدار کو ترک کرکے لوگ بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں لگے ہیں ۔ اس دوڑ کو جیتنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح منشیات کے پھیلائو کی وجہ سے بھی جرائم میں اضافہ ہورہاہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے ک عمومی طور برداشت کی صلاحیت ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ صبر و حلم کا جو مادہ پایا جاتا تھا اس میں بہت حدتک کمی آگئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ جرائم کے دلدل میں آگئے ہیں ۔ یہ کوئی بنی بنائی بات نہیں ۔ کوئی افسانہ بھی نہیں ہے ۔ بلکہ سروے کرکے معلوم ہوا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جرائم میں ملوث ہورہے ہیں ۔ اعداد و شمار سے جو بات سامنے آئی ہے اس میں ہیر پھیر ہونا کوئی عجیب بات نہیں ۔ کوئی بھی سروے سو فیصد صحیح نہیں ہوتی ہے ۔ اس میں کہیں کمی اور کہیں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ البتہ بنیادی حقایق برقرار ہی رہتے ہیں ۔ حکومت ان اعداد و شمار کو یک سر مسترد کرسکتی ہے کہ اس سے حکومت کے بدنام ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ لیکن سرکاری تھانوں اور انسداد جرائم کے جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں ان کا ریکارڈ دیکھنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جرائم بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ پولیس محکمے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس افراد کی کمی ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اب ہر علاقے میںپولیس تھانے یا چوکی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہر علاقے میں جرائم قابو پانا پولیس کے بغیر ممکن نہیں رہاہے ۔ شہروں کو چھوڑ کر اب دوردراز کے دیہی علاقوں میں جرائم کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ ان علاقوں میں گائوں کے چوکیدار اور لمبردار جرائم کو روکنے کے لئے کافی سمجھے جاتے تھے ۔ گائوں کی پنچایت یا چار پانچ عمر رسیدہ لوگ اس کام کو انجام دیتے تھے ۔ ایسا کوئی تنازع سامنے آتا جس سے گائوں کا پر امن ماحول خراب ہونے کا خطرہ نظر آتا تو معزز شہری سامنے آکر اس کو قابو میں کرتے ۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ لوگ کسی کی سننے کو تیار نہیں ۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی فیصلے سناتے اور سزائیں مقرر کرتے ۔ غصے کو قابو میں کرنے کے بجائے لاٹھیاں اور بندوق لے کر مخالف فریق پر چڑھ دوڑتے ۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ تشویشناک بات ہے ۔ اس وجہ سے سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار بن رہا ہے ۔ بچوں پر تشدد کرکے ان کے باغی بن جانے کا شدید خطرہ ہے ۔ تشدد کا شکار بچے بڑھ ہوکر پورے معاشرے کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔ جرائم کا بڑھ جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
