وزیراعظم کے کہنے پر ملک میں نشہ مکت بھارت مہم چلائی جارہی ہے ۔ عوامی حلقوں میں اس حوالے سے بیداری مہم چلائی جارہی ہے ۔ ایسے طبقوں کو خاص طور سے نشہ مکت بھارت مہم کے دائرے میں لایا جارہا ہے جن کے اندر ایسی بدعت خاص طور سے پائی جاتی ہے ۔ اسکولوں کے اندر بالغ طلبہ کو نشہ آور اشیا کے استعمال اور اثرات سے روکنے کے لئے پروگرام کئے جارہے ہیں ۔ اساتذہ کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے کہ نشہ مکت بھارت مہم کامیاب بنانے کے لئے ہر اسکول میں پروگرام منعقد کئے جائیں ۔ وسیع پیمانے پر مہم چلانا ایک بہتر قدم قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود اس بات کی بہت کم امید کی جاتی ہے کہ واقعی بھارت نشہ سے مکت ملک بن جائے گا ۔ یہاں نشہ آور اشیا کا کاروبار اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ ایک دو ہفتوں کی مہم سے اس پر قابو پانا مشکل ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے مذہبی حلقوں میں اسے مذہبی رنگ دیا گیا ہے ۔ پیروں فقیروں اور سادھووں کے یہاں اس کو روحانیت کا ذریع سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے مخصوص حلقوں میں چرس اور بھنگ کا استعمال ایک بنیادی گر سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بغیر یہ آگے بڑھ نہیں سکتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے حلقے اس حوالے سے سیریس نہیں ہیں ۔ نشہ آور اشیا کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لئے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔ اس کاروبار سے جڑے افراد کو پولیس اور دیگر اداروں کی سرپرستی حاصل رہتی ہے ۔ پولیس کسی کو گرفتار کرے تو مبینہ طور ایک دو ہفتوں کے بعد ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ نشہ مکت بھارت بنانا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔
جموں کشمیر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں نشے کے استعمال اور کاروبار میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے ۔ اس وجہ سے کئی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال نشہ آور اشیا کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ایسے افراد کے خلاف کاروائی کے کیسوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ سرکار پورا سال بتاتی رہی کہ نشے کے پھیلائو کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر کاروائیاں کی جارہی ہیں ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کسی نہ کسی گینگ کو پکڑا گیا ہو ۔ ان کے فوٹو دکھائے گئے اور میڈیا میں تشہیر کی گئی کہ نشہ آور اشیا کی بڑی کھیپ پکڑی گئی ۔ یہاں تک کہ خواتین کو اس حوالے سے ملوث ہونے اور پکڑے جانے کا دعویٰ کیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ ادویات کا کاروبار کرنے والے نشہ آور اشیا پھیلانے میں ملوث پائے گئے ۔ اب پتہ چلا ہے کہ بڑے پیمانے پر کاروائیوں کے باوجود اس کام کو روکا نہیں جاسکا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں جنگجو حلقے بھی ملوث ہیں ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایسے کئی افراد پکڑے گئے جو اس کاروبار سے ملنے والے سرمایے کو جنگجو سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ سرحد کے آر پار اس کاروبار کو فروغ دینے کے لئے بندوق کا استعمال کیا گیا ۔ اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں بہت کم لوگ بچے ہیں جو اس ناجائز طریقے میں نہ پھنسے ہوں ۔ آبادی کا بڑا حصہ کسی نہ کسی طریقے سے اس دھندے کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہورہا ہے ۔ کچھ لوگ اس کی کاشت کرکے اس کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ کئی لوگ اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس کا استعمال کرکے اسے آگے بڑھارہے ہیں ۔ سومو اور ٹرک ڈرائیور اس کاروبار کے آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہاں تک بہار اور پنجاب سے آنے والے مزدور یا مستری اس کاروبار میں ملوث بتائے جاتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کاروبار نے جموں کشمیر کو کس حد تک اپنے خونی پنجوں میں جکڑ لیا ہے ۔ اس دوران کئی لوگوں کے نشہ آور اشیا کے استعمال سے ہلاک ہونے کے کئی کیس سامنے آئے ۔ والدین کی اس حوالے سے بے حسی پر سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ والدین کو حساس بنانے کی ضرورت ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ نئی نسل اس لت میں زیادہ تعداد میں پڑی ہے ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ والدین اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب نئی نسل کے بیشتر نوجوان نشہ آور اشیا کے استعمال میں ملوث ہوجائیں گے ۔ اس وجہ سے سماج کے اندر اخلاقی برائیوں کے علاوہ جرائم بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔ بے روز گاری میں اضافہ اور ذہنی تنائو اس کے محرک بتائے جاتے ہیں ۔ حکومت چاہتی ہے کہ پورے ملک کو نشہ سے مکت بنایا جائے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک گھر اورعلاقے کو اس سے پاک بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ ابھی دلی دور ہے ۔
