جموں کشمیر انتظامی کونسل نے جمعرات کو اپنے ایک اہم اجلاس میں بجلی صارفین کو راحت دینے اک فیصلہ کیا ۔ یہ راحت ان صارفین کے لئے ہوگی جو کسی وجہ سے آج تک فیس ادانہیں کرسکے ۔ راحت پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ بجلی فیس کے بقایا دار اب بقایا فیس قسطوں میں ادا کرسکتے ہیں ۔ انہیں یہ فیس ادا کرنے کے لئے بارہ قسطوں میں ادائیگی کرنے کی گنجائش ہوگی اور ایسے صارفین کو کسی قسم کا اضافی فیس ادا نہیں کرنا ہوگا ۔ جو اصل فیس بنتی ہے وہی ادا کرنا ہوگی ۔ سود یا کوئی اور اضافی چارجز ادا نہیں کرنا ہونگے ۔ تاہم جو صارف اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ بات جمعرات کو دیر گئے سامنے آئے ۔ بہت سے لوگوں نے اس پیکیج پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ تاہم بعض لوگ اسے توقع سے کم راحت کاری قرار دیتے ہیں ۔
ایسے بجلی صارفین کو جو کسی وجہ سے ماہانہ فیس ادا نہیں کرسکے پہلے بھی کئی بار راحت پہنچانے کا اعلان کیا گیا ۔ اس کے باوجود کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ فیس ادا کرنے کے بجائے یہ لوگ فیس معاف ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ کئی دہائی پہلے ایسا ہی کیا جاتا تھا ۔ بلکہ کئی بار بینکوں سے لئے گئے قرضے بھی معاف کئے گئے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو عادت پڑ گئی کہ سرکار معاف کرتی جارہی ہے ۔ لوگوں نے قرضے پر قرضے لئے اور بجلی فیس ادا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ لوگ یہ دلیل دیتے رہے کہ مفت بجلی استعمال کرنا ان کا حق بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے بڑے پیمانے پر بجلی فیس بقایا رکھی ۔ اس دوران کئی طرح کی تبدیلیاں آئیں اور لوگوں کے ذہن بدل گئے ۔ بیشتر لوگوں نے بجلی فیس کی ادائیگی کا معاملہ سنجید گی سے لیا اور بجلی فیس اداکرنے لگے ۔ اب اکثر صارفین وقت پر فیس ادا کرتے ہیں ۔ جب سے بینک کی وساطت سے اور آن لائن فیس ادا کرنے کا طریقہ شروع کیا گیا صارفین کو آسانی ہوئی اور لوگ اپنے گھر بیٹھ کر فیس ادا کرتے رہے ۔ اس دوران صارفین کے بجائے محکمہ بجلی کو فیس حاصل کرنے میں کافی مدد ملی ۔ عام شہریوں کی بڑی تعداد اب وقت پر بجلی فیس ادا کرتی ہے ۔ تاہم یہ بات نظر اندا ز نہیں کی جاسکتی کہ محکمے نے اس طریقے کا بے جا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پسند سے صارفین کی فیس میں اضافہ کیا ۔ یہ صحیح ہے کہ بجلی ملازموں پر فیس وصول کرنے کے لئے سخت دبائو ڈالا جاتا ہے ۔ بجلی ملازمین مجبور ہوکر کئی نازیبا قدم اٹھاتے ہیں ۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ صارفین سے پوچھ بغیر ان کی ماہانہ فیس میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ انہیں مہینے کے آکر میں جب بجلی فیس کی بل پہنچ جاتی ہے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ ان کی فیس میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ ریونیو بڑھانے کا یہ بظاہر آسان طریقہ ہے ۔ لیکن یہ کسی طور صحیح اور اخلاقی طور درست فیصلہ نہیں ہے ۔ اس کی شاید کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے ۔ بجلی ملازم اکثر دلیل دیتے ہیں کہ صارفین ان پر مقررہ فیس سے بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ ہیٹر اور بوئلر استعمال کرنے کی آڑ میں صارفین وک بجلی چوری کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس کی حقیقت سے انکار نہیں ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کی عادت محکمے کے ملازموں نے ہی ڈالی ۔ لوگوں کو بجلی چور سکھانے والے کوئی دوسرے نہیں بلکہ محکمے کے اپنے ملازم ہیں ۔ آج بھی جبکہ ورک کلچر اور رشوت ستانی کو قابو کرنے کے لئے کئی ادروں کو میدان میں اتارا گیا ہے محکمہ بجلی کے بہت سے ملازم خاص طور سے چوتھے درجے کے لائن میں صارفین سے گٹھ جوڑ کرکے انہیں معمولی رشوت کے عوض بجلی استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ اسی اک نتیجہ ہے کہ بجلی چوری پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا ۔ محکمے کے ملازم اس کاروبار کا حصہ نہ بنیں تو بجلی چوری رکانا کوئی مشکل نہیں ۔ اس کے علاو ہ بجلی فیس میں معقولیت لانے کی ضرورت ہے ۔ بہت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ اس کے لئے دیانت داری یا قانونی چارہ جوئی سے کام نہیں لیا جاتا ہے ۔ یہاں ملازم کی مرضی کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ دوسری طرف کئی ایسے سرکاری ادارے ہیں جن کے پاس بجلی فیس کی صورت میں کروڑوں روپے بقایا ہیں ۔ فوجی چھانیوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔ یہاں جس طرح سے بغیر کسی ضابطے کے بجلی استعمال کی جاتی ہے اس کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی ۔ اس کے بجائے ایسے صارفین وک تنگ کیا جاتا ہے جو دس روپے بھی بجلی فیس کی صورت میں ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو بھی ایک ہزار روپے کے لگ بھگ فیس ادا کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ ان کی سکت سے باہر ہے ۔ ایسے صارفین کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہے کہ انہیں فیس ادا کرنے کو کہا جائے ۔ یومیہ مزدوروں پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ فیس کی صورت میں موٹی رقم ادا کریں ۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کو اپنی مرضی سے چھوٹ دی جاتی ہے ۔ اس طرح کے ماحول میں راحت رسانی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔
