اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا جارہاہے کہ کشمیر میں ابھی تک بچوں کو مزدوری پر لگاکر ان سے کمائی کرانے کا رجحان پایا جاتاہے ۔ بہت سے بچے نہ صرف گھریلو کام کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں بلکہ یومیہ اجرت اور دیہا ڑی کے کام پر لگائے جاتے ہیں ۔ انہیں ٹھیکہ داروں ، دکانداروں اور بہت سے اداروں کے اندر باضابطہ کام پر لگایا جاتا ہے ۔ ان سے مشقت کاکام کرنے پر ان کے والدین اور دوسرے رشتہ دار انہیں مجبور کرتے ہیں ۔ بچہ مزدوری مخالف دن کے موقعے پر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ اس عمل کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا ۔کئی جگہوں پر جانکاری کے کیمپ منعقد کئے گئے جہاں شرکا کو بچہ مزدوری کے مضر اثرات اور قانونی پابندیوں سے روشناس کیا گیا ۔ ایسے کیمپ ہر سال منعقد کئے جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود بچہ مزدوری معاشرے کا حصہ ہے اور اس کا رجحان ختم نہیں ہوتا ۔ ملک میں اس کے خلاف قانون بھی پایا جاتا ہے اور ایسے لوگ مجرم قرار دئے گئے ہیں جو بچوں سے کام لے کر بچہ مزدوری کا باعث بن رہے ہیں ۔ اخلاقی اور مذہبی تعلیمات بھی اس کی اجازت نہیں دیتی ہیں ۔ تاہم باقی علاقوں کی طرح جموں کشمیر میں بچہ مزدوری اب تک پائی جاتی ہے ۔ اس کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کو وقتی ایشو نہ سمجھا جائے ۔ ایک آدھ دن اس کے خلاف بولنے سے اس ناسور کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ جب ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
جموں کشمیر میں باقی علاقوں کے مقابلے میں بچہ مزدوری کا رجحان بہت کم ہے اور یہ ایک مخصوص طبقے میں پایا جاتا ہے ۔ گوجر کمیونٹی اس کی بڑے پیمانے پر شکار ہے ۔ یہاں نہ صرف بچہ مزدوری بلکہ کم عمری میں شادی انجام دینے کا رجحان ابھی تک موجود ہے ۔ پچھلی سروے میں دیکھا گیا کہ بانڈی پورہ ، پلوامہ اور کولگام کے بالائی علاقوں میں بچوں کو مزدوری پر لگانا ابھی تک موجود ہے ۔ اس کی بڑی وجہ کم فہمی اور مالی مشکلات ہیں ۔ یہاں تو بیرونی علاقوں سے بچوں کو لاکر کام پر رکھا جاتا ہے ۔ ان بچوں سے گھریلو کام کرانے کے علاوہ انہیں چائے کی دکانوں ، ہوٹلوں اور ورک شاپو ں میں بہت کم اجرت پر مصروف کار رکھا جاتا ہے ۔ ایسے بچوں کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کمائی کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی کام سیکھیں تاکہ بڑے ہوکر خود کوئی کام کرسکیں اور اپنا گھر چلاسکیں ۔ ایسے بچوں کو اسکولوں سے اٹھاکر دکانوں اور دوسرے مقامات پر بٹھایا جاتا ہے ۔ اس طرح سے یہ بچے تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں ساتھ ہی ان کی صحت بھی ناکارہ ہوجاتی ہے ۔ بلکہ ایسے بہت سے بچے منشیات کے بھی عادی پائے گئے ہیں ۔ کچھ سال پہلے حکومت نے سو فیصد خواندگی کو مکن بنانے کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا ۔ لیکن یہ ٹارگٹ آج تک حاصل نہیں کیا جاسکا ۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بہت سے والدین بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کے بجائے کچھ پیسوں کی لالچ میں انہیں کام پر لگاتے ہیں ۔ اس طرح سے یہ اپنا پیٹ بھرنے کے اہل ہوجاتے ہیں ۔ والدین کو ان سے کوئی مالی مدد ملے یا نہ ملے کم از کم ان سے ایک فرد کا بوجھ کم ہوجاتا ہے ۔ اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ لڑکیوں کو دوسروں ککے بچے سنبھالنے اور کچن کا کام کرنے کے لئے امیر گھروں میں رکھا جاتا ہے ۔ ایسی بچیاں جو ابھی خود دوسروں کے سہارے کی محتاج ہوتی ہیں بدقسمتی سے امیروں کے بچوں کو پالنے کے لئے کام کرنے لگتی ہیں ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ایسے کم سن بچے خاص طور سے بچیاں ان گھرانوں میں کام پر لگائی جاتی ہیں جو خود قانون نافذ کرنے پر متعین ہوتے ہیں ۔ عدالتوں کے ججوں ، وکیلوں اور پولیس آفیسروں کے گھروں میں غریب بچے کام پر لگائے جاتے ہیں ۔ ایسے ڈومسٹک مزدور سرینگر کے پوش علاقوں میں دکانوں سے روٹیاں لاتے اور بچوں کو گود میں اٹھائے اسکول لے جاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ۔ یونیورسٹی ملازموں کے پاس ایسے درجنوں بچے دیکھے جاتے ہیں ۔ ان کے مالکوں کی طرف سے کام پر رکھے گئے بچوں کے والدین کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ بالغ ہونے پر انہیں یونیورسٹی میں ملازمت فراہم کی جائے گی ۔ آج کلاس فورتھ کے طور جو ملازم ایسے اداروں میں نظر آتے ہیں ان کی بڑی تعدا ایسے لوگوں کی ہے جو بچپن میں کسی نہ کسی ملازم یا آفیسر کے گھر میں کام کرتے تھے ۔ اس نے ایک طرف کئی سو لوگوں کو تعلیم سے محروم کردیاساتھ ہی ساتھ یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ۔ اس طرح کے گھریلو ملازموں کو ملازمت دے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا ۔ کچھ گھروں کے لئے معقول آمدنی کا ذریعہ تو فراہم ہوتا ہے ۔ لیکن آگے جاکر اس سے معاشرے کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لئے عالمی ادارے فکر مند پائے گئے ہیں ۔ ان کی طرف سے امداد حاصل کرنے کے باوجود بچہ مزدوری کی یہ بیماری ہر جگہ موجود پائی جاتی ہے ۔ اس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔
