جموں کشمیر انتظامی کونسل نے عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے نئے محکمے کے قیام کو منظوری دی ہے ۔ جمعرات کو لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں منعقد ہوئے کونسل کے اجلاس میں اس حوالے سے اہم فیصلہ لیا گیا ۔ عوامی شکایات کے ازالے کے اس قدم سے امید کی جاتی ہے کہ عوام کو بہتر انتظامیہ فراہم ہوگی ۔ گورنر ہائوس میں پہلے ہی عوامی شکایات کے حوالے سے کام کیا جاتا تھا ۔ ایل جی از خود لوگوں کی شکایات سنتے اور ان شکایات کو دور کرنے کے اقدامات کرتے تھے ۔ حال ہی میں انہوں نے اس طرح کے ایک ویڈیو پروگرام میں لوگوں کی شکایات سن کر متعلقہ ڈپٹی کمشنروں اور دوسرے آفیسروں کو موقعے پر ہی ہدایات دیں ۔ اس طرح سے شکایات دور کرنے کی کوششوں کو عوامی حلقوں میں کافی سراہا گیا ۔ اب عوامی شکایات سننے اور اس پر کاروائی کو یقینی بنانے کے لئے ایک محکمے کا باضابطہ قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ اس اقدام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ نی صرف عوام کو اپنے مسائل اور مشکلات دور کرنے میں مدد ملے گی بلکہ انتظامی مشنری میں اصلاحات کرنا بھی ممکن ہوگا ۔
موجودہ دور میں عوام کے مسائل کافی بڑھ چکے ہیں ۔ سرکار یہ بات بار بار کہتی ہے کہ عوام کو سرکاری دفتروں کے چکر کاٹنے سے نجات دلانے کے لئے انہیں ان کے دروازے پر انصاف فراہم کیا جائے گا ۔ سرکار کی کوشش ہے کہ آفیسروں سے ملنے کے لئے عوام ان کے دفتروں میں آنے کے بجائے آفیسر ہی عوام تک پہنچ جائیں ۔ عوام اور انتظامی کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے کے لئے ای گورننس کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔ اس کوشش کے تحت عوام کی شکایات الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے سنی جاتی ہیں ۔ سوشل میڈیا خاص کر واٹ سیپ، فیس بک اور ای میل کے ذریعے سے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاکہ ان کے مسائل سن کر ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے ۔ ایسا کرکے یقینی طور لوگوں کو اپنے مسائل اجاگر کرنے میں مدد مل رہی ہے ۔ تاہم کئی آفیسروں خاص کر نچلی سطح پر کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں کا عوام کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہوتا ہے ۔ بہت سے سرکاری اہلکار یہاں تک کہ کسی دفتر میں کام کرنے والا چپراسی بھی لوگوں کو ڈرا دھمکاکر انہیں اپنے حق سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تحصیل آفسوں ، تھانوں اور اسی طرح کے دوسرے دفتروں میں جاکر سخت مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ ایک یا دوسرے بہانے سے سائل کو بار بار دفتر آنے پر مجبور کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ تنگ آکر اپنا حق مانگنے سے ہی دستبردار ہوتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاکر اپنی شکایت درج کرے ۔ شاید اسی غرض سے عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے ایک محکمے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ کشمیر میں پہلے ہی اس نوعیت کے محکمے کام کرتے ہیں ۔ ایک تو عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ کون سی شکایت کہاں پر جاکر پیش کریں ۔دوسرا شکایت سننے کے بعد فوری کاروائی سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے اکثر شکایات جوں کی توں رہتی ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہر دفتر میں شکایات کا ڈھیر پڑا ہے ۔ آفیسروں کا کہنا ہے کہ شکایات کو دور کرنے بیٹھ جائیں تو کوئی دوسرا کام کرنا ممکن نہیں ۔ اب سرکار نے جو قدم اٹھایا اور شکایات دور کرنے کے لئے مخصوص مھکمے کے قیام کی منظوری دی اس سے یقینی طور عوام کو کافی سہولت میسر آئے گی ۔ حالانک کشمیر میں پہلے ہی کئی ایسے محکمے موجود ہیں جہاں پر جاکر شکایت درج کی جاسکتی ہے ۔ پولیس کے اندر ہی کئی ایسے ادارے موجود ہیں جن کا کام لوگوں کی جائز شکایات کو سن کر ان کا ازالہ کرنا ہے ۔ لیکن ایسے بیشتر محکمے پہلے ہی ناکام ہو کر مفلوج ہوگئے ہیں ۔ ان اداروں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ رشوت اور اقربا پروری ان کے ہاتھوں پروان چڑھنے کی وجہ سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باضابطہ ایک الگ محکمے کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی اور کشمیر انتظامی ونسل نے اس کی منظوری دی ہے ۔ نئے محکمے کے قیام سے عوام امید کرتے ہیں کہ راحت میسر آئے گی ۔ یہ اب عوام کا فرض ہے کہ اس ادارے کو دھاندلیوں اور خود غرضیوں سے روک دیں ۔ بصورت دیگر یہ ان کے خلاف ہی کام کرنے لگے گا ۔ ایسے اداروں میں کام کرنے والے افراد باضابطہ تنخواہ لیتے ہیں جو انہیں کوئی ذاتی جیب سے نہیں دیتا بلکہ یہ تنخواہ خزانہ عا مرہ سے ادا کی جاتی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ خزانہ عامرہ سے موٹی موٹی رقمیں وصول کرنے کے بعد بھی سرکاری اہلکار رشوت اور دوسری ناجائز مراعات حاصل کرنے کے پیچھے لگے ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں کی جائز شکایات دور نہیں ہوتی ہیں ۔عوام کے لئے بہتر موقع ہے کہ اپنی شکایات سامنے لاتے وقت رشوت دینے سے احتراز کریں اور رشوت طلب کرنے کی صورت میں اس کی شکایت متعلقہ محکمے تک پہنچائیں ۔ وہاں کاروائی نہ ہوجائے تو ایل جی آفس میں اپنا مسئلہ پیش کریں ۔ اس طرح سے بہتر اور صاف و شفاف انتظامیہ کا قیام عمل میں لانا آسان ہوگا ۔
