بنگلورو میں ملک بھر سے بی جے پی مخالف جماعتوں کے نمائندوں نے ایک اہم اجلاس میں شرکت کی ۔ اجلاس میں ان جماعتوں کا ’INDIA ‘ نام سے ایک نیا اتحاد قائم کیا گیا ۔ اجلاس میں کانگریس کے علاوہ کئی ایسی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی جن کی مبینہ طور گیارہ ریاستوں میں حکومت قائم ہے ۔ اس سے پہلے اپوزیشن اتحاد کو یو پی اے کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ بنگلورو اجلاس میں اتحاد کا نیا نام دے کر کام کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ عام آدمی پارٹی نے پہلی بار کانگریس قیادت میں کام کرنے کی ھامی بھرلی اور اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ۔ ادھر جموں کشمیر کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں این سی اور پی ڈی پی نے اتحاد کا حصہ بننے پر رضامندی دکھائی ہے ۔ دونوں جماعتوں نے انڈیا نام کے اقتدار مخالف اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ۔ اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جارہاہے ۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اتحاد میں شامل کئی جماعتوں کے درمیان سخت قسم کی آپسی رسہ کشائی پائی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے زیادہ دیر قائم رہنے کے بارے میں یقین دہانی بہت مشکل بتائی جاتی ہے ۔ بعض حلقوں کا اتحاد سے متعلق خیال ہے کہ یہ محض اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریع ہے ۔ یہی وجہ ہے اسے کچھ خود غرض اور اقتدار کی بھوکی جماعتوں کا اتحاد قرار دیا جاتا ہے ۔ بلکہ الزام لگایا جارہاہے کہ کانگریس کی اقتدار واپسی کو ممکن بنانے کے لئے اتحاد تشکیل دیا گیا ۔ا دھر کانگریس کے صدر ملکرجنا کھرگے نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو اقتدار تک پہنچنے یا وزیراعظم کی کرسی حاصل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ بلکہ جمہوریت مخالف فورسز کا مقابلہ کرنے کی خواہش مند ہے ۔ اس کے باوجود بعض حلقے اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اتحاد کے زیادہ دیر قائم رہنے پر خدشات کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتحاد میں شامل بیشت جماعتوں کے مابین سخت رسہ کشی پائی جاتی ہے ۔ ان جماعتوں کے کسی ایک دھڑے کو بھی ناراض کیا گیا تو اتحاد سے علاحدگی اختیار کرے گا ۔ اس کے علاوہ یہ بات بڑی اہم ہے ک اتحاد میں کئی ایسی جماعتیں موجود ہیں جن کے خیالات ایک دوسرے سے متحارب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو کسی مضبوط اتحاد کے بجائے الیکشن اتحاد تک محدود بتایا جاتا ہے ۔
بنگلورو میں بنائے گئے اپوزیشن اتحاد میں مبینہ طور جموں کشمیر سے این سی اور پی ڈی پی کے شامل ہونے کی اطلاع ہے ۔ یہ دونوں پارٹیاں ماضی میں پائی جانے والی ریاست جموں کشمیر میں حکومت کرتی رہی ہیں ۔ لیکن ریاست کو آئین میں حاصل خصوصی درجہ ختم کئے جانے اور اسے یونین ٹیریٹری بنانے کے بعد دونوں پارٹیوں کے لیڈر یہ درجہ بحال کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ اسمبلی کو بحال کرکے اس کے لئے الیکشن کرائے جائیں ۔ سرکار اس طرف تاحال توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہورہی ہے ۔ تاہم دونوں پارٹیوں کے سربراہ اب اپوزیشن کی طرف سے مودی حکومت کے خلاف کھولے گئے محاذ کا حصہ بتائے جاتے ہیں ۔ اس محاذ میں شامل ہونے سے کیا کوئی بھلا ہوسکتا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اسمبلی کے انتخابات کوئی ایسا مطالبہ نہیں جو پورا کرنا مشکل ہو ۔ تاہم ریاست کا درجہ بحال کرنا اور آئین کی دفعہ 370 واپس لانا واقعی ایک بڑا کارنامہ ہوگا ۔ یہ کارنامہ واقعی کوئی انجام دے گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ خاص طور سے بنگلورو اتحاد سے اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام دینا مشکل ہے ۔ سب کو یاد ہوگا کہ دفعہ 370 کو تحلیل کئے جانے کے موقعے پر بی جے پی مخالف پارٹیوں میں سے کیجریوال کی اپنی پارٹی نے مودی سرکار کی سب سے بڑی حمایت کی تھی ۔ اسی طرح بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس معاملے میں سرکار کو ہر قسم کو تعاون دینے کا اعلان کیا تھا ۔ اب جو نیا اتحاد بن گیا ہے اس میں این سی اور پی ڈی پی کے ساتھ یہ دونوں پارٹیاں موجود ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دونوں پارٹیوں کے سربراہ کشمیر کاز کی حمایت کریں گی ۔ پہلے یہ کشمیر کے خلاف بنائی گئی صف میں کھڑا تھے ۔ این سی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس حوالے سے کیجریوال کی کئی بار تنقید کی ۔ اب کسی وجہ سے کیجریوال بی جے پی کی اتحادیوں کی صف سے نکل آئے ہیں ۔ تاہم ان کے بارے میں یہ اندازہ لگانا کہ کشمیر کی سابق پوزیشن کو دوبارہ بحال کرنے کی حمایت کریں گے ، بہت مشکل ہے ۔ ان کی پارٹی کو اس وقت دہلی میں اسی طرح بی جے پی سے محاذ آرائی ہے جیسے ماضی میں کانگریس کے ساتھ لڑائی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے کانگریس کے ساتھ بنائے گئے محاذمیں شامل ہونے کا اعلان کیا ۔ یہ وقتی اتحاد ہے ۔اس دوران وہ کسی بھی صورت میں کشمیر کاز کی حمایت نہیں کریں گے ۔ بلکہ پورے انڈیا اتحاد سے کشمیر کو کسی قسم کا فائدہ ملنے کی امید نہیں ۔ اس بارے میں سوچنا اور معاملات طے کرنا ضروری ہے ۔ خاص طور سے اتحاد میں شامل کشمیر کے پارٹی رہنمائوں کو ان باتوں کا جائزہ لینا ہوگا ۔
