اس بات پر عوامی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جارہاہے کہ سکمز صورہ میں ڈاکٹروں کوبرانڈڈ ادویات تجویز کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ منگل وار کو جاری کئے گئے حکم نامہ میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ ڈاکٹر اب صرف جنرک ادویات ہی تجویز کرسکتے ہیں ۔ یہ آڈر عوام کی سہولت کے لئے نکالا گیا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مرکزی سرکار نے بہت پہلے اس طرح کا قدم اٹھایا ہے اور ڈاکٹروں سے اپنی پسند کی ادویات تجویز کرنے کے بجائے جنرک دوا ہی نسخوں پر تحریر کرنے کو کہا ہے ۔ اس حکم نامے سے کہا جاتا ہے کہ نہ صرف مریضوں کو مالی فائدہ ہوا بلکہ مرض کا بہتر علاج بھی ممکن ہوسکا۔ جنرک اور برانڈڈ ادویات کا مسئلہ کافی عرصے سے زیر بحث ہے ۔ بہت سے حلقے اس بارے میں سخت تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ کئی بار حکومت سے اس مسئلے پر حتمی فیصلہ صادر کرنے کی اپیل کی گئی ۔ لیکن ماضی میں اس طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔ اس دوران کئی علاقوں میں جنرک ادویات تجویز کرنے کا تجربہ کیا گیا ۔ بلکہ مقامی انتظامیہ نے اس کا اہتمام بھی کیا اور ڈاکٹروں سے صرف اور صرف جنرک ادویات لکھنے کی ہدایت دی گئی ۔ یہ تجربہ بڑا کامیاب رہا اور عوامی حلقوں میں اس کی پذیرائی کی گئی ۔ اس دوران مرکزی سرکار نے یہ حوصلہ افزا کام کیا کہ ایک تحریری حکم نامے میں جنرک ادویات لکھنے کی ہدایت کی گئی ۔ اس سے متاثر ہوکر سکمز صورہ کے ڈائریکٹر نے اپنے تازہ حکم نامے میں ہدایت کی کہ برانڈڈ ادویات لکھنے سے اجتناب کیا جائے اور محض جنرک ادویات ہی تجویز کی جائیں ۔ اسی آڈر میں کہا جاتا ہے کہ ادویات کمپنیوں کے نمائندوں جنہیں عام زبان میں MR کہا جاتا ہے ہسپتال میں داخل ہونے پر پابندی لگادی گئی ۔ دونوں مسئلے ایسے ہیں جن کا مریضوں کے علاوہ عام لوگوں نے حل کرنے کی تعریف کی ہے ۔ اس کو ایک عوام دوست اقدام قرار دیتے ہوئے انتظامیہ کو شاباشی دی جارہی ہے ۔
جنرک ادویات لکھنا اور ادویہ کمپنیوں کے نمائندوں کے ہسپتال میں داخلے پر پابندی دونوں ایسے مسئلے ہیں جو ڈاکٹروں سے ان کا نوالہ چھیننے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹروں نے پچھلے تیس چالیس سالوں کے دوران جو ترقی کی وہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے پیشے کو تجارت کے راستے پر ڈالنے سے ممکن ہوا ۔ برانڈڈ کمپنیوں کے ادویات لکھنے سے انہیں جو کمیشن ملتا ہے وہ لاکھوں سے بڑھ کر اب کروڑوں تک پہنچ چکا ہے ۔ کووڈ 19 کے دوران جب لوگ ترستے تھے اور موت ہر شخص کے سروں پر منڈلا رہی تھی ایسے جان لیوا مرحلے پر بھی ایک مخصوص کمپنی اور اس سے تعاون کرنے والے ڈاکٹر کروڑوں کا منافع کماتے رہے ۔اس حقیقت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کفن چوروں کی طرح ہمارے ڈاکٹر مریضوں کے موت کا نقد معاوضہ حاصل کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر کسی قسم کی پابندی لگانا آسان نہیں ۔ تازہ آڈر کو سکمز کی انتظامیہ کیا واقعی عملانے میں کامیاب رہے گی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ اس سے پہلے عوام کو یقین دلایا گیا کہ سکمز کے ڈاکٹروں کو کسی بھی صورت میں پرائیویٹ پرکیٹس کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ لوگوں نے یہ اعلان سننے پر بھی تالیاں بجائی تھیں ۔ لیکن کچھ ہفتوں بعد پتہ چلا کہ آڈر کاغذ کے صفحے اور ویب سائٹ تک ہی محدود ہے ۔ وہاں کے ڈاکٹروں کو اس آڈر سے یہ فائدہ ملا کہ انہوں نے مریضوں سے دوگنی فیس وصول کرنا شروع کی ۔ اب وہ کھلے عام کلینکوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں نسخے لکھ رہے ہیں اور باقی ڈاکٹروں سے زیادہ فیس بھی وصول کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ ایسے ڈاکٹروں کے پرائیویٹ پریکٹس کے اشتہار سوشل میڈیا پر کھلے عام ظاہر کئے جاتے ہیں ۔ کس جگہ اور کس وقت ڈاکٹر میسر ہونگے اس بارے میں مریضوں کو بڑے طمطراق سے اطلاع دی جاتی ہے ۔ اس طرح سے صورہ ہسپتال کی انتظامیہ کا منہ چڑھایا جاتا ہے اور انتظامیہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ اب جو آڈر جنرک ادویات اور کمپنی کے نمائندوں کے حوالے سے نکالا گیا اس بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کمپنیوں کا استحصال کرنے میں کامیاب ہونگے ۔ وہ مزید اجرت طلب کریں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کمپنیاں اس کا حساب لگاکر ادویات کی قیمت میں اضافہ کریں گی ۔ اب مریضوں کو دوہرا عذاب سہنا پڑے گا ۔ یہاں ایک بار پھر انتظامیہ مریضوں کے بجائے ڈاکٹروں کے لئے فائدہ بخش ثابت ہوگی ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے انتظامیہ اپنے احکامات کو عملانے کے معاملے میں سخت گیر ثابت ہورہی ہے ۔ ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی کیا یہی حکمت عملی اپنائی جائے گی ، دیکھنا باقی ہے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو صورہ ہسپتال میں کئی سال پہلے کا نظام بحال ہوگا اور مریض پھر یہاں داخل ہوکر موت کا شکار ہونے کی غلطی نہیں کریں گے ۔ یہاں قائم نظام کے تحت مریض کے شفایاب ہونے کے بجائے اس کے موت کی زیادہ یقین دہانی کی جاتی ہے ۔
