سرینگر انتظامیہ نے اس وقت بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا جب امام حسین کے عزہ داروں کو آٹھ محرم کے روز شہر میں جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح سے تین دہائیوں کے طویل وقفے کے بعدشہر میں اس طرح کے جلوس میں مرثیہ خوانی اور سینہ کوبی کے مناظر دیکھنے کو ملے ۔ جموں کشمیر کے ایل جی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کے زمانے میں عزہ داری کا جلوس نکالنے کی سعی کامیاب رہی اور کسی طرح کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے شہدائے کربلا کو سلام پیش کرتے ہوئے اسے تاریخ کا بڑا حادثہ قرار دیا ۔ اپنے پیغام میں انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ تمام لوگ باہمی رشتوں اور آپسی اتحاد کو مضبوط بنائیں ۔ سرینگر میں محرم کا جلوس روایتی انداز میں شہید گنج سے نکالا گیا اور مولانا آزاد روڑ سے ہوتے ہوئے ڈل گیٹ کے مقام پر خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام کو پہنچا ۔ جلوس میں سیاہ لباس میں ملبوس کئی سو لوگوں کے علاوہ دوسرے محبان حسین نے شرکت کی ۔ جلوس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی نظر آئی۔ ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی بار اس طرح سے محرم جلوس کا اہتمام دیکھا ۔ شیعہ کمیونٹی کے علاوہ دوسرے مذہبی لیڈروں نے جلوس کی اجازت دینے اور انتظامیہ کی طرف سے بہتر انتظام کئے جانے پر خوشی کا اظہار کیا ۔ پولیس نے 8 محرم کے جلوس کو مضبوط امن کی طرف ایک سنگ میل قرار دیا ۔
محرم جلوس کے حوالے سے پچھلے کئی روز سے انتظامیہ اور شیعہ لیڈروں کے درمیان مشورہ ہورہا تھا ۔ اس دوران کئی لیڈروں کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔ بلکہ باعث تنازع بنانے کی کوشش کی گئی ۔لیکن یہ خدشات اس وقت بے جا ثابت ہوئے جب پولیس نے جلوس کے لئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کئے ۔ پولیس نے عزہ داروں کی پیاس بجھانے کے لئے کئی جگہوں پر سبیلیں لگائی تھیں ۔ اس سے پہلے اندازہ ہوا تھا کہ ڈویژنل انتظامیہ جلوس نکالنے کے حوالے سے بڑی سنجیدہ ہے ۔ اس غرض سے شیعہ لیڈروں سے تجاویز طلب کی گئیں ۔ ایسے
بیشتر لیڈروں نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے جلوس پر امن طریقے سے نکالنے کی یقین دہانی کی ۔ تاہم انتظامیہ نے اپنے طور بہتر انتظام کرتے ہوئے جلوس کو ایک تاریخی مرحلہ بنایا ۔ اس طرح سے تیس چونتیس سال کے بعد سرینگر میں عزہ داری کا یہ شاندار جلوس نکالا گیا ۔ سرینگر کے علاوہ وادی کے کئی دوسرے مقامات پر اس طرح کے جلوس نکالے گئے ۔ تمام جگہوں پر ایسے جلوس پر امن رہے ۔ انتظامیہ پچھلے تین سالوں سے اس بات پر زور دے رہی ہے کہ کشمیر میں مکمل امن قائم ہے اور کسی طرح کے خطرات نہیں پائے جاتے ہیں ۔ یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ مرکزی سرکار کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں یہاں تشدد کا اب کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس موقعے پر اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ حکومت محرم جلوس نکالنے میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا کرے گی ۔ ایسے جلوسوں کے دوران ماضی میں بھی سرکار کا بڑا فراخدلانہ تعاون رہاہے ۔ لیکن ملی ٹنسی کے دوران کسی وجہ سے ایسے جلوس نکالنا ممکن نہ ہوسکا ۔ اس حوالے سے شیعہ رہنمائوں کو اپنے تحفظات تھے ۔ سرحد پار کئی ایسے حادثات پیش آئے جن میں کئی سنی اورشیعہ خود کش حملہ آوروں نے ایک دوسرے کے لیڈروں کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا ۔ یہاں بھی فرقہ واریت کے کئی واقعات پیش آئے بلکہ مختلف فرقوں کے درجنوں پیروکار مشکوک انداز میں ہلاک کئے گئے ۔ تازہ تریں واقعات میں کئی غیر علاقائی مزدوروں ، سرکاری ملازموں اور پنڈتوں کو گولیاں چلاکر مارا گیا ۔ اس بنیاد پر ایسے حملوں سے بچائو کرنا سخت مشکل لگتا تھا ۔ لیکن سرکار نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے جلوس نکالنے کی اجازت دی ۔ اس طرح سے بھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آئیں ۔ محرم کے جلوس کے حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ حسین کے طرف دار اور عقیدت مند کسی ایک فرقے یا طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ۔ بلکہ ہر فرقے اور مذہب کے لوگ ان کے لئے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ بہت سے غیر مسلم قلم کاروں اور شاعروں نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کربلا کے حادثات پر دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے ۔ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے ایسے جلوس میں شرکت فخر کی بات ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی حلقے پچھلے تیس سالوں سے جلوس کے لئے اجازت دینے پر زور دے رہے تھے ۔ کئی بار زبردستی جلوس نکالنے کی کوششیں کی گئیں ۔ لیکن اس وقت کی حکومت ایسے جلوسوں کے حق میں نہیں تھی ۔ ان دنوں بہ ظاہر حالات بھی مناسب نظر نہیں آتے تھے ۔ اب حالات میں تبدیلی آتے ہی اور پر امن ماحول بنتے ہی حکومت نے اپنے موقف میں تبدیلی لائی اور جلوس نکالنے کی اجازت دی ۔ یہ ایک حوصلہ افزا قدم ہے جو حالات کو ساز گار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ۔
