ہندوستان بڑی تیزی سے ترقی کررہاہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے اندر مالی اعتبار سے اس کا درجہ اونچا آگیا ہے ۔ مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں ملک نے مالی ترقی کی شرح بڑھادی ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ملک بہت جلد دنیا کے ٹاپ تھری مالی ترقی پانے ممالک میں شامل ہوگا ۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی کوششیں اپنا رنگ لارہی ہیں ۔ اس سے حوصلہ پاکر بہت سے ممالک ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے تگ و دو کررہے ہیں ۔ بلکہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی بھی اس وجہ سے بڑی کامیاب بتائی جاتی ہے ۔ یہ بات کئی بار دوہرائی گئی کہ مالی ترقی پانے کے بعد عالمی فورموں میں ہندوستانی نمائندوں کی بات بڑے غور سے سنی جاتی ہے ۔ اس کے بجائے خطے کے کئی ممالک بڑی تیزی سے زوال کی طرف آرہے ہیں ۔ سری لنکا کے بعد اب پاکستان دیوالیہ قرار دیا جارہاہے ۔ وہاں کے کئی اعلیٰ اداروں کا کہنا ہے کہ ملک پہلے ہی دیوالیہ ہوچکا ہے ۔ اب بس اعلان کرنا باقی ہے ۔ وہاں کے سیاسی ، فوجی اور مالی حالات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ دنیا کی ترقی میں ایسی کوئی مثال تلاش کرنا مشکل ہے ۔ ملک آئی ایم ایف کی طرف سے فراہم کئے گئے آکسیجن پر چل رہاہے اور کئی ممالک کے پاس کشکول لے کر مالی امداد کی بھیک مانگ رہاہے ۔ اس کے بجائے ہندوستان کئی سالوں سے دوسرے ممالک کو امداد فراہم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ پچھلے سال ترکی میں زلزلے کے دوران دہلی کی طرف سے متاثرین کو جو امداد فراہم کی گئی وزیراعظم نے اس کا فخریہ انداز میں ذکر کیا ۔ اس کے بجائے خطے کے دوسرے ممالک ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔اسی طرح اندرون ملک بھی مالی استحکام کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ یہ جب ہی ممکن ہوا کہ ملک کی سیاسی قیادت نے مالی اداروں کی سرپرستی کرکے انہیں کام کرنے کی آزادی دی ۔ یہ بڑی خوش آئندبات ہے کہ ملک مالی اعتبار سے استحکام حاصل کررہاہے ۔ تاہم اس دوران بے کاری اور بے روزگاری کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں ان کی وجہ سے تشویش بڑھتی جارہی ہے ۔ خاص کر جموں کشمیر کے حوالے سے حقایق مایوس کن ہیں ۔ ملکی سطح پر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد کے آس پاس ہے ۔ اس کے برعکس جموں کشمیر میں یہ شرح اٹھارہ فیصد سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ ممکن ہیں کہ ایسی وجوہات صحیح ہوں اور ان سے بے روزگاری بڑھ گئی ہو ۔ اس کے باوجود یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ بے روزگاری میں اسی طرح سے اضافہ ہوتا گیا تو بعد میں اس پر قابو پانا ممکن نہ ہوگا ۔ کشمیر میں آمدنی کے بہت سے ذرایع ہیں ۔ نوکری کے علاوہ نوجوان کئی دوسرے ذرایع سے روزگار حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہاں سیاحت کی صنعت میں روزگار کے بہت سے مواقع ہیں ۔ لیکن نوجوان اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران اس صنعت کی جو حالت بنائی گئی نوجوان اس وجہ سے سیاحت کی طرف توجہ نہیں دے سکے ۔ اب اس صنعت میں آنے کے لئے جس سند اور تربیت کی ضرورت ہے نوجوانوں کے اندر نہیں پائی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے ان کے لئے آگے جاکر اس صنعت میں آنے کے کم چانس ہیں ۔ اسی طرح یہاں جو قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں ان کو استعمال میں لاکر مالی ترقی کی جاسکتی ہے ۔ پینے کے پانی کی فراہمی کو لے کر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں بہت سے ایسے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی قدرتی طور منرل واٹر سے بہتر ہے ۔ دنیا چاہتی ہے کہ انہیں اسی طرح کا قدرتی طور صاف پینے کا پانی ملے ۔ اس حوالے سے ساری دنیا حساس ہوچکی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے حاصل کیا گیا صاف پانی انہیں فرام کیا جائے ۔ اس ذریعے سے نوجوان کافی پیسہ کماسکتے ہیں ۔ اسی طرح میوہ کی صنعت ایک وسیع صنعت ہے ۔ لیکن لوگ اس صنعت کو فروغ دینے کے جدید طریقوں سے واقف نہیں ۔ بلکہ روایتیا نداز میں میووں کی پیداوار کی جاتی ہے ۔ قدامت پسند کسان بہت زیادہ پھل حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں ۔ ایسے ہی بہت سے وسائل ہیں جن کو استعمال میں لاکر مالی لحاظ سے کافی ترقی کی جاسکتی ہے ۔ سرکار اس حوالے سے برآمدی پالیسی میں بدلائو لاکر یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے نئے وسائل فراہم کرسکتی ہے ۔ عالمی مارکیٹ میں کشمیری میووں اور دوسری پیداوار کو متعارف کرکے روزگار تلاش کرنا مشکل نہیں ہے ۔ اسرائیل اس حوالے سے کشمیر سے بہت آگے ہیں ۔ وہاں کشمیر کے مقابلے میں وسائل اور موسم کسی طور
