لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے سوپور اور دیگر باسیوں کو مشورہ دیا کہ انتہا پسندوں یا ان کے حامیوں کو تحفظ نہ دیں ۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ماضی میں جس طرح سے سوپور کے عوام نے دہشت پسندوں کی حمایت کی آگے ایسا نہ کریں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے یہاں کے لوگوں نے آنے والی نسلوں کی زندگی اجیرن بنادی ۔ سنہا نے یاد دلایا کہ ایک مرحلے پر سوپور کو قندہار کا نام دیا گیا تھا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ افغانستان کا قندھار جس طرح سے انتہا پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور مشہور تھا سوپور بھی کشمیر میں اسی حیثیت کا مالک تھا ۔ ایل جی نہ سوپور کے عوام کو یہ بات سمجھاتے ہوئے کہ دہشت گردی کسی طور قابل قبول نہیں ۔ اس حوالے سے عوام کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور سوپور کو امن پسند شہر بنانا ہوگا ۔ اس دوران انہوں نے یاد دلایا کہ سوپور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مرکز بھی رہا ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ باہم ایک خاندان کی طرح رہتے تھے ۔ تاہم بعد میں حالات بدلے اور علاحدگی پسندی کی وجہ سے مختلف فرقوں کے درمیان دراڑ پیدا ہوگئی ۔ ایل جی نے اپنے خطاب میں شہریوں پر زور دیا کہ نئے ماحول اور حالات کو سمجھ کر دہشت گردوں کی حمایت سے دور رہا جائے ۔ باقی کام پولیس اور سیکورٹی فورسز کریں گے ۔ انہوں نے یہ بات واضح کی کہ یوٹی میں کسی طرح کی انتہا پسندی قابل قبول نہیں اور بہت جلد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کیا جائے گا ۔ اس بات کے پیش نظر عوام کو قومی دہارے میں آکر ایسا ماحول بنانا چاہئے تاکہ سوپور کی حالت رفتہ کو بحال کیا جائے گا ۔ انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ سوپور بہت جلد تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوگا اور یہاں کے عوام خوش و خوشحال ہونگے ۔
سوپور کو کشمیر کا لندن مانا جاتا تھا ۔ یہاں تجارتی سرگرمیاں خاص طور سے میووں کی ڈھلائی بڑے پیمانے پر ہوتی تھی ۔ لوگوں کا رہن سہن اعلیٰ درجے کا تھا اور لوگ بڑے آسودہ حال تھے ۔ نوے کی دہائی میں جب بندوق برداروں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو سوپور کی سرزمین کو ان سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جانے لگا ۔ کئی نامور ملی ٹنٹ کمانڈر یہاں آکر پورے منظر نامے پر چھاگئے اور خطے میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہ علاقہ چونکہ حریت رہنما سید علی گیلانی کا آبائی علاقہ تھا ۔ ان کا سیاسی کیریر یہیں سے شروع ہوکر پروان چڑھا تھا ۔ وہ اسی علاقے سے دو بار ریاستی اسمبلی کے ممبر بھی چن لئے گئے تھے ۔ ان کی شخصیت کشمیر علاحدگی پسندی کے حوالے سے مرکزی کردار کی حامل سمجھی جاتی تھی ۔ اس تناظر میں سوپور بھی عسکری اور دوسری علاحدگی پسند سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جانے لگا ۔ اس دوران یہاں زندگی کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور قصبے کو کئی بار آگ لگاکر یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ بہت سی جانیں خاص کر عام شہریوں کی قیمتی جانیں تلف ہوگئیں ۔ ان مناظر کی وجہ سے یہاں آج تک خوف و دہشت کا ماحول پایا جاتا ہے اور لوگ سخت مایوس نظر آتے ہیں ۔ لیفٹنٹ گورنر نے علاقے کا دورہ کرکے عوام کی ڈھارس بندھانے کے علاوہ انہیں وارننگ بھی دی کہ علاحدگی پسند سرگرمیوں سے دور رہیں اور کسی بھی ایسے شخص کی حمایت نہ کریں جو اس طرح کی سوچ کا حامل ہو ۔ ان کا کہنا تھا کہ سوپور کو دوبارہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بانیا جائے گا ۔ سوپور میں آج بھی وسیع میوہ منڈی پائی جاتی ہے ۔ جہاں کشمیر کے ہر کونے سے کسان میوہ لے کر پہنچ جاتے ہیں ۔ میوے یہاں بڑی مقدار میں فروخت ہوتے ہیں اور گاڑیوں میں میوہ یہیں سے ملک کے کونے کونے میں جاتا ہے ۔ میوہ منڈی کے منتخب سربراہ کا کہنا ہے کہ میوہ بیوپاریوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ جس میں سے خاص طور سے ہائی وے بند رہنے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی مسائل ہیں جن سے مبینہ طور ایل جی کو باخبر کیا گیا ۔ ایل جی نے میوہ منڈی میں کام کرنے والوں کو یقین دلایا کہ ان کے مسائل ھل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بہت جلد سوپور پورے ملک کی تجارتی سرگرمیوں کا حصہ ہوگا ۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں کئی علاقوں کو تجارتی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جارہاہے ۔ بیرونی ممالک جس طرح سے دہلی اور دوسرے علاقوں میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کے حق میں ہیں اس سے اندازہ ہورہاہے کہ اس علاقے کے عوام آئندہ سالوں میں مالی آسودگی حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے ۔ بہت سی غیر ملکی کمپنیوں نے جموں کشمیر میں سرمایہ کرنے کی حامی بھرلی ہے ۔ اندازہ ہے کہ سوپور اس حوالے سے نظر انداز نہیں ہوگا ۔ بلکہ میووں کی تجارت کے حوالے سے یہاں سرگرمیاں بہت زیادہ ابھار پائیں گی ۔ بلکہ یہ تجارت منافع بخش بھی ثابت ہوگی ۔ اس سے پہلے انتظامیہ نے سیاحتی صنعت کو بحال کرکے سرینگر اور آس پاس کے علاقوں کو کافی سہارا دیا ۔ اب سوپور میں ایل جی کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ میوہ صنعت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی جائے گی ۔ انتظامیہ کی طرف سے ان سرگرمیوں کی حمایت کی گئی تو کافی سہارا ملنے کی امید ہے ۔سوپور کے عوام اسی بات کے خواہش مند ہیں ۔