یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ڈویژنل انتظامیہ نے ہدایت دی ہیں کہ قومی شاہراہ پر ٹریفک کے نقل و حمل میں کسی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔ اس طرح کے حکم نامے سے میووں سے بھری گاڑیوں کا جلد از جلد ملک کے بڑے مارکیٹوں میں پہنچ جانا یقینی ہے ۔ انتظامیہ کے اس اقدام سے تجارتی حلقوں کے علاوہ کسانوں کو راحت مل پائے گی ۔ بدقسمتی سے پچھلے دو مہینوں کی لگاتار خشک سالی کی وجہ سے میوہ صنعت کو مبینہ طور سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ میوے خاص طور سے سیب کئی طرح کی نئی بیماریوں کا شکار ہورہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال فصل کی مقدار میں پہلے ہی کمی پائی جاتی تھی ۔ اب خشک سالی کی وجہ سے کسانوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ادھر مرکزی سرکار نے امریکہ اور ایران کے علاوہ دوسری ریاستوں سے میووں کے برآمدی ٹیکس میں کمی کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ حالیہ سفارتی سرگرمیوں کے بعد اندازہ ہے کہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لئے تجارتی فوائد پہنچانے کا امکان ہے ۔ اس غرض سے میوے خاص کر سیب کی در آمد پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔ کشمیر میں عوام کے اندر اس وجہ سے سخت بے چینی پائی جاتی ہے ۔ تجارتی حلقوں کے علاوہ کئی سیاسی رہنمائوں نے اسے ملک اور کشمیر میوہ صنعت کو نقصان پہنچانے کا اقدام قرار دیا ہے ۔ ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف کشمیر بلکہ ہماچل اور دوسرے علاقوں میں پیدا ہونے والے میوہ فصلوں کو خسارہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ان حلقوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اس اقدام سے اجتناب کیا جائے ۔ پچھلے سال بھی میووں کی درآمد پر لگائی جانے والی ڈیوٹی پر کمی کے بعد بڑی مقدار میں سیب در آمد کئے گئے تھے ۔ بلکہ کئی حلقوں نے الزام لگایا تھا کہ اس وجہ سے میووں کی اسمگلنگ بڑ گئی اور ایسے میوے بہت کم قیمت پر فروخت ہوئے ۔ اس وجہ سے مقامی میووں کی خرید و فروخت پر کافی اثر پڑا ۔ رواں سال میوہ صنعت سے جڑے افراد توقع کررہے تھے کہ اچھی تجارت رہے گی ۔ لیکن موسم میں غیر معمولی تبدیلی اور سرکاری اقدامات سے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے ۔
کووڈ لاک ڈاون اور بعد میں کئی دوسری وجوہات کی بنا پر میوہ صنعت خسارے سے دو چار رہی ۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ میووں کی پیداوار پر کسانوں کو کافی خرچہ آتا ہے ۔ پورا سال اس کے تحفظ میں گزرجاتا ہے ۔ قریب قریب ہر ہفتے دوا پاشی کرنا پڑتی ہے ۔ ایسا نہ کیا جائے تو نہ صرف فصلوں کو بلکہ درختوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے ۔ ادویات کے حوالے سے اکثر شکایت رہتی ہے کہ کسانوں کا استحصال کرکے انہیں بازار میں نقلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں ۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں جس سے یہ اخذ کیا جائے کہ کون سی دوا نقلی اور کون اصلی ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران درجنوں ایسی کمپنیاں سامنے آئیں جو کسانوں کو بہتر ادویات فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ لیکن عملی طور ان ادویات سے فائد ہ ملنے کے بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ کسانوں کو ان اداروں تک رسائی نہیں جہاں پر شکایت درج کرکے ان کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے ۔ دوردراز علاقے کا بے بس کسان ایسا کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ بڑی معنی خیز بات ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ادویات چھڑکنے کے باوجود باغوں میں بیماریاں روز بروز پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ ایگریکلچر اور ارٹیکلچر سے جڑے سرکاری ادارے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پائے ہیں کہ فصلوں اور میووں کو بیماریوں سے بچایا جاسکے ۔ ہمارے یہ تمام ادارے آج بھی بیرونی ریسرچ پر انحصار کرکے وہاں سے نقل کئے ہوئے مشورے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ ہر سال زرعی یونیورسٹیوں سے درجنوں اسکالر فراغت پانے کے باوجود ان کی تحقیق سے عام کسانوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچتا ہے ۔ ایسے تمام اسکالروں کی ساری سرگرمیاں ڈگری حاصل کرکے نوکریوں ڈھونڈنے تک محدود ہوتی ہیں ۔ انہیں اس بات سے بالکل کوئی سروکار نہیں کہ مقامی ضرورتوں کے حوالے سے صحیح معنی میں تحقیق کرکے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں ۔ یہ قومی سرمایہ خرچ کرکے اپنے لئے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔ پھر ان ہی ڈگریوں کے بل پر تنخواہیں وصول کرنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے
کہ ہم آج تک فصلوں کو لگنے والی بیماریوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں ۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ میوہ باغات سے انہیں بہت کم فائدہ ملتا ہے ۔ اس کے بجائے جراثیم کش ادویات فروخت کرنے والوں کے لئے یہ ایک نفع بخش صنعت بن گئی ہے ۔ ایسی کمپنیاں مبینہ طور کسانوں کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہی ہیں ۔ تجربہ میں آیا ہے کہ کسان بڑی مشکل سے اپنا پیٹ پالتے ہیں ۔ اس کے بجائے ادویات فروخت کرنے والی کمپنیاں تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہیں ۔ اب سرکار کی طرف سے درآمدی میوہ جات پر ڈیوٹی میں تخفیف سے مزید نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس سے ممکن ہے کہ سفارتی سطح پر ملک کو بڑا فائدہ ملے گا ۔ تاہم کسانوں اور دوسرے تجارتی حلقوں کو اس وجہ سے سخت تشویش لاحق ہے ۔