گڈول کوکر ناگ میں جاری تصادم میں تین سیکورٹی آفیسروں کی ہلاکت پر وادی بھر میں ماتمی جلوس نکالے گئے ۔ اس حوالے سے کئی جگہوں پر کینڈل لائٹ مارچ کا انعقاد کیا گیا ۔ جمعرات کو شام دیر گئے لوگ لالچوک میں گھنٹی گھر کے پاس جمع ہوگئے اور شمعیں جلاکر اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ سرینگر کے کئی علاقوں میں اسی طرح کے جلوس نکالے گئے ۔ ہندوارہ کے علاوہ پلوامہ ، بڈگام اور اننت ناگ میں مہلوکین کے پسمانگان سے یک جہتی کے طور ماتمی جلوس نکالے گئے ۔ اس دوران بہت سے مقامات پر شمعیں جلائی گئی اور چراغ روشن کئے گئے ۔محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام اسکولوں اور دفتروں میں شام کو کینڈل لائٹ کا اہتمام کیا گیا ۔ اس سے پہلے ایل جی منوج سنہا نے مارے گئے دو فوجی آفیسروں پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور مہلوک پولیس آفیسر کے گھر جاکر وہاں اہل خانہ سے تعزیت کی ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ قوم آفیسروں کی طرف سے ملک کی حفاظت میں بہائے گئے خون کی ہمیشہ مقروض رہے گی ۔ ایک تقریب میں بولتے ہوئے انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملی ٹنسی سے فائدہ اٹھانے والوں نے معصوم بچوں کے ہاتھ میں بندوق اور پتھر تھما کر انہیں گمراہ کیا ۔ اس وجہ سے لوگ آج تک مشکلات کا شکار ہیں ۔ یاد رہے کہ فوج کے ایک کرنل اورمیجر کے علاوہ پولیس کا ایک آفیسر اس وقت مارا گیا جب انہوں نے گڈول کوکرناگ میں چھپے ملی ٹنٹوں کو مار گرانے کے لئے وہاں وسیع آپریشن کیا ۔ اس آپریشن کے شروع میں ہی مبینہ طور کمین گاہ میں چھپے ملی ٹنٹوں نے آفیسروں کو نشانہ بناکر گولیوں کی بوچھاڑ کی اور یہ تینوں دم توڑ بیٹھے ۔ ان ہلاکتوں پر وسیع پیمانے پر غم اور دکھ کا اظہار کیا گیا ۔ کئی سیاسی ، سماجی اور سیکورٹی حلقوں نے مہلوکین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ۔ تعزیت کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ہمہامہ میں واقع پولیس آفیسر کے گھر معزز شہریوں ، عام لوگوں اور سیاسی لیڈروں کی آمد تاحال جاری ہے ۔ یہ حلقے پولیس آفیسر کی موت پر سخت صدمے کا اظہار کررہے ہیں ۔
پچھلے تیس سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح سے لوگوں نے ملی ٹنٹوں کے ہاتھوں مارے گئے پولیس اہلکار کی موت پر لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ۔ اس سے پہلے بھی کئی پولیس آفیسر اور اہلکار مارے گئے ۔ کئی ایک کی ہلاکت کے موقعے پر بھی لوگوں نے گھروں سے نکل کر ایسے مہلوکین کی آخری رسومات میں حصہ لیا ۔ جن پولیس کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا ان کی ہلاکت پر لوگوں نے احتجاج بھی کیا ۔ تاہم ایسے احتجاج محدود سطح پر ہوتے تھے اور انتظامیہ زیادہ تر ان سے لاتعلق ہی رہتی تھی ۔ آج پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا کہ بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے ۔ سڑکوں پر لائنوں میں کھڑا رہے اور کینڈل لائٹ مارچ کا اہتمام کیا ۔ لوگوں کا اس طرح سے جلوس نکالنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا کوئی معیوب بات نہیں ۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ کئی سال پہلے لوگوں نے ملی ٹنٹوں کے دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے قاضی نثار اور غنی لون کی ہلاکتوں پر سخت احتجاجی مظاہرے کئے ۔ تاہم اس کے کوئی خاص نتائج سامنے نہ آئے ۔ ملی ٹنٹوں کی کاروائیاں جاری رہیں اور لوگ پھر مین اسٹریم سے دور ہوگئے ۔ آج لوگوں نے ایک بار پھر اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ ان کا یہ جوش کہاں تک قائم رہے گا کچھ کہنا مشکل ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ جموں میں بے جی پی کی زیرقیادت کئی سیاسی جماعتوں نے احتجاجی ریلی نکالی ۔ یہ لوگ پاکستان کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور کوکرناگ انکائونٹر کے لئے پاکستانی ایجنسیوں اور حافظ سعید کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی بات کہاں تک صحیح ہے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔ حفاظتی ایجنسیاں اپنے طور ضرور تحقیقات کرکے اصل صورتحال کا پتہ لگائیں گی ۔ ابھی اتنا معلوم ہے کہ کوکرناگ تصادم آرائی کے دوران چار آفیسر مارے گئے اور دیگر کچھ زخمی ہوگئے ۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ عوامی حلقوں میں پولیس آفیسر کی ہلاکت کے حوالے سے سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔ لوگ اس حوالے سے بڑے حساس دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے نوجوان بڑی بے دردی سے مارے جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے کشمیری پچھلے تیس پنتیس سالوں سے نقصان اٹھارہے ہیں ۔ جب بھی کہیں کوئی تصادم ہوتا ہے تو کشمیر کا کوئی نہ کوئی شہری مارا جاتا ہے ۔ اگرچہ کچھ عرصے سے بہت کم انکائونٹر ہورہے ہیں ۔ تاہم جب بھی ایسا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو نقصان کشمیر کا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بڑا ہی دکھ کا معاملہ ہے کہ ایسے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں ۔ سیاسی حلقے اس کی اپنے طور تشریح کرتے ہیں اور عوام کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمایوں کی موت کو دوہرانے نہ دیا جائے اور یہ اس قسم کی آخری ہلاکت ہو ۔