لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جموں کشمیر میں سرکاری تعلیمی شعبہ کئی دہائیوں تک جمود کا شکار رہا ۔ اس دوران طلبہ کی ضروریات پر توجہ نہیں دی گئی اور تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ تعلیمی شعبے کے اس جمود کی وجہ سے طلبہ کی سرگرمیوں پر روک لگ گئی اور طلبہ آگے بڑھنے سے محروم رہے ۔ ایل جی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سرکاری تعلیمی شعبے سے جمود کو ختم کیا گیا ۔ انتظامیہ نے اس شعبے کو متحرک بنانے کے لئے کئی اقدامات کئے جن سے تعلمی نظام بہتر ہوگیا اور تعلیم کا شعبہ ترقی کررہاہے ۔ سنہا جموں میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے جہاں انہوں نے تعلیمی شعبے کے جمود اور اب اس میں بہتری کا ذکر کیا ۔ اس موقعے پر انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں پر زور دیا کہ ہر ایک کے لئے تعلیم کو ممکن بنائیں ۔ انہوں نے تعلیم کو سب کے لئے قابل رسائی بنانا وقت کی ضرورت قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی اہمیت سامنے لائی ۔ انہوں نے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو تعلیم سستی بنانے اور سب کے لئے ممکن بنانے کی نصیحت کی ۔ تاکہ پسماندہ طبقہ یہاں پر تعلیم سے مستفید ہوسکے ۔ ایل جی نے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو سامنے آنے اور سماج کے تئیں اپنی خدمات بہم پہنچانے پر زور دیا ۔ انہوں نے اس بات پر کوشی کا اظہار کیا کہ جموں کشمیر میں درس و تدریس کا کام بغیر کسی مداخلت کے پرسکون انداز میں جاری ہے ۔
ایل جی کا یہ کہنا کہ جموں کشمیر میں سرکاری تعلیمی شعبہ تین دہائیوں تک جمود اور تعطل کا شکار رہا کوئی غلط بات نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو کسی طور غلط نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اس دوران جو غیر مناسب حالات رہے ان کا سب سے نمایاں اثر سرکاری تعلیمی اداروں پر پڑا ۔ تعلیمی نظام سخت ابتری کا شکار رہا اور درس و تدریس کے کام پر منفی اثرات پڑے ۔ بلکہ تعلیمی اداروں کو نذر آتش کیا گیا اور دفاتر میں اہلکاروں کی من مانی عروج کو پہنچ گئی ۔ اس دوران نجی تعلیمی ادارے منظر عام پر آئے اور پہلی بار پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا جال بچھایا گیا ۔ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بہت حد تک تعلیمی معیار کو بہتر بنایا اور طلبہ کے کیریر کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ۔ اس دوران تعلیم کو تجارت میں بدلنے کے اقدامات کئے گئے یہاں تک کہ تعلیم کا شعبہ سب سے منافع بخش تجارت بن گیا ۔ کئی لوگوں نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ذاتی منافع کا کاروبار بنادیا ۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ تعلیم کے پھیلائو کی آڑ میں ایک وسیع تجارتی شعبہ وجود میں آگیا ۔ اس زمانے میں نجی تعلیمی شعبے کو سب سے بڑی تجارتی منڈی سمجھا جاتا تھا ۔ کئی لوگوں نے طلبہ اور ان کے والدین کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا ۔ ایسے کلاسز وجود میں جہاں بھیڑ بکریوں کی طرح طلبہ ٹھونک دئے جاتے تھے ۔ پھر ان کو مائکرا فون استعمال کرکے پڑھایا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ کم سن بچوں کو پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں میں صبح سات آٹھ بجے پہنچنے پر زور دیا جاتا تھا ۔ کسی نے اسے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں مانا ۔ اس زمانے میں نہ صرف تعلیمی شعبہ پوری طرح سے منجمد ہوگیا تھا بلکہ پوری ایڈمنسٹریشن مفلوج ہوکر رہ گئی تھی ۔کسی جگہ شکایت کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر میں ایک نیا نظام وجود میں آگیا جہاں آہستہ آہستہ ورک کلچر کو تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ۔ ایسے اساتذہ اور دفتری بابو جو افراتفری کے حالات میں اپنی بادشاہت چمکانے کے عادی ہوگئے تھے نئی انتظامیہ سے سخت گھبرائے ہوئے نظر آنے لگے ۔ سرکاریا سکولوں کے اندر آن لائن حاضری کو لازمی قرار دیا گیا ۔ کلچر ل سرگرمیوں کے علاوہ کھیل کود کے مقابلے کئے جانے لگے ۔ درس و تدریس کو کسی بھی حالت میں پٹری سے اترنے نہیں دیا گیا ۔ بلکہ پورے نظام کو کس کے رکھ دیا گیا ۔ اس دوران ایسے کئی پرائیویٹ تعلیمی ادارے انتظامیہ کی پکڑ میں آگئے جو محض طلبہ کے استحصال کی بنیاد پر اپنے لئے دولت سمیٹنے میں مشغول تھے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ تعلیمی معیار بحال رہتا ہے کہ نہیں ۔ لاٹھی جب چلی تو بدقسمتی سے کئی ایسے ادارے بھی اس کی زد میں آگئے جنہوں نے تعلیمی جمود کی تین دہائیوں کے دوران بہت حد تک بہتر کام بھی کیا تھا ۔ ایسے پبلک اسکولوں نے طلبہ کا استحصال کرنے کے بجائے انہیں بہتر تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن ایسے بہت سے اسکول خالصہ سرکار یا کاہ چرائی کی زمین پر قائم تھے ۔ لاقانونیت کے زمانے میں کئی معزز شہریوں نے ان اسکولوں کو کالی اراضی فراہم کی ۔ یہ دیکھے بغیر کہ ایسی اراضی کے حوالے سے کسی بھی وقت سرکار کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ آج جب ایسے اسکول قانون کی گرفت میں آگئے تو بڑا ہی افسوس ہوتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی چکی کی زد میں آگیا ۔ اس طرح کی غیر دانشمندانہ اقدامات کا خمیازہ غریب طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ سرکاری تعلیمی نظام صحیح سمت میں جارہاہے ۔ اس حوالے سے اسکولوں کے ساتھ دفاتر کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ایسی ہمہ جہت کوششوں سے ہی پورے نظام کو صحیح راستے پر لایا جاسکتا ہے ۔
