صدقہ فطر اورخیرات کے حوالے سے میڈیا کے ذریعے پریشان کن باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عام لوگوں کا سخت استحصال کیا جارہاہے ۔ اس طرح کا استحصال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے ۔ ان حلقوں کی طرف سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ جعلی رسید بکوں کے علاوہ فرضی مریضوں کے نام پر خیرات جمع کرکے یہ رقم ہڑپ کی جاتی ہے ۔ ایسے افراد اور خیراتی اداروں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اس وجہ سے حساس حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ یہ جان کر بڑا افسوس ہوا کہ معصوم بیماروں کے لئے چندہ جمع کرکے اس کا بڑا حصہ ہڑپ کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جان لیوا بیماریوں میں ملوث افراد کے نام پر رقوم جمع کرکے وہ اصل مستحق افراد تک نہیں پہنچائی جاتی ہے ۔ یہ الزام ہر جمع کرنے والے پر نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ تاہم بیشتر چندہ جمع کرنے والے مبینہ طور فراڈ ثابت ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگ گاڑیوں میں نعت اور منعقب کے کیسٹ چلاکر لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور انہیں دھوکہ دے کر ان سے جنس اور نقد کی صورت میں کافی مال جمع کرتے ہیں ۔ جموں کشمیر میں بلکہ پورے ملک میں اس طرح سے بھیک مانگنے پر قانونی پابندی لگی ہوئی ہے ۔ سرکاری ادارے بعض موقعوں پر بھکاریوں کے خلاف کاروائی بھی کرتے ہیں ۔ لیکن ایسے افراد اور اداروں کو ان کے کام سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی جو بڑی چالاکی سے یہ کام اناجم دیتے ہیں ۔ خاص طور سے گاڑیوں کا استعمال کرکے چندہ جمع کرنے والوں کو روکنے کی کوئی بہتر کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔ ادھر ماہ صیام کے دوران ایسا چندہ جمع کرنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اور خیراتی ادارے صدقہ فطر اور زکوات کے پیچھے پڑجاتے ہیں ۔ اس طرح سے جمع کی گئی رقم کہاں جاتی ہے آج تک معلوم نہیں ہوسکا ۔ اتنی بڑی رقوم جمع کرنے کے بعد ان افراد یا اداروں سے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا گیا جس سے پتہ چلتا کہ صدقہ اور زکوات صحیح کاموں میں استعمال ہوتا ہے ۔ بلکہ یہی لگتا ہے کہ ساری رقم فضول اور غیر شرعی مصارف پر خرچ ہوتی ہے ۔ اس طرح کی صورتحال روکنے اور ایسے رقوم کو صحیح انداز میں خرچ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام پر نظر گزر رکھی جائے ۔ چونکہ یہ کام اسلام اور خیرات کا لبادہ اوڈھ کر انجام دیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں بہتر سمجھا جاتا ہے کہ وقف بورڈ اس پر نظر گزر رکھے ۔
پچھلے دنوں علما کے ایک گروہ کی طرف سے روزوں کے حوالے سے صدقہ فطر کی ریٹ مقرر کی گئی ۔ اس طرح سے ہر مسلمان کے لئے عید الفطر سے پہلے 70 روپے بطور صدقہ فطر ادا کرنے کے لئے کہا گیا ۔ صدقہ فطر ادا کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور عام طور پر یہ صدقہ ماہ رمضان کے آخری ایام میں ادا کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی آبادی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بڑی رقم بنتی ہے ۔ صدقہ فطر کے حوالے سے مسلمان انتہائی سنجیدہ ہیں اور اس کی ادائیگی بروقت کرتے ہیں ۔ اسی طرح لوگوں کی بڑی تعداد زکوات بمطابق ادا کرتی ہے ۔ اتنی ساری رقم دیانت داری سے خرچ کی جائے تو یقینی طور کشمیر میں غربت پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران غریبی کی سطح سے نیچے گزارنے والوں کے حق میں سرکار کی طرف سے بڑے پیمانے پر اعانت کی جاتی ہے ۔ کل معلوم ہوا کہ ایک مد کے تحت فی کس نو ہزار روپے جو واجب الادا تھے یکمشت واگزار کئے گئے ۔ اس پر لوگ بڑی خوشی کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس دوران اگر صدقہ و زکوات کو مستحق غریبوں کے حق میں خرچ کیا جائے تو یقینی طور غربت پر قابو پانا ممکن ہوگا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس رقم کو غریبوں اور دوسرے مستحقین تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ اس معاملے میں وقف بورڈ کی خاموشی اور بے حسی معنی خیز ہے ۔ پچھلے ایک سال کے دوران وقف بورڈ کی طرف سے کئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس سے عام شہری بڑے ہی خوش نظر آتے ہیں ۔ خانقاہوں اور آستانوں پر وہاں جمع ہونی والی خیرات کو سٹریم لائن کرنے کے بہت اچھے اقدامات کئے گئے ۔ ان مقدس مقامات پر جو استحصالی عناصر بیٹھے تھے ان کو ٹھکانے لگاکر عام زائرین کو ان سے نجات دلائی گئی ۔ یہی صورتحال صدقات اور زکوات کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ دین کے نام پر استحصال کرنے والے ان رقوم کو ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سکھ کمیونٹی اس حوالے سے زیادہ مخلص ثابت ہورہی ہے اور چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود بڑے بڑے کام انجام دیتی ہے۔اس کے بجائے مسلمانوں کی ساری خیرات غیر پیداواری کاموں پر خرچ ہورہی ہے ۔ اس رقم کو صحیح مصرف میں لانے کے لئے وقف بورڈ کو سامنے آنا ہوگا جب ہی یہ رقم خیر کے کاموں میں خرچ ہوگی ۔