لوک سبھا کے انتخابات کی سرگرمیوں میں تیزی لائی گئی ہے ۔ انتخابات کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے ۔ انتظامی اہلکار الیکشن معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں ۔ یہ بڑا نازک اور حساس معاملہ ہے ۔ ملازمین کی تربیت کے علاوہ ضروری ساز و سامان کی جانچ کی جارہی ہے ۔ ضلعی کمشنر آئے دن مختلف سطح کی میٹنگوں میں الیکشن تیاریوں کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ تمام انتظامات کو فول پروف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ادھر مختلف حلقوں میں ووٹ ڈالنے کی تاریخ نزدیک آرہی ہے ۔ اس وجہ سے انتظامیہ کا بیشتر حصہ الیکشن تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ان مصروفیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ بلکہ آخری مرحلے تک تمام سرکاری مشنری کا اس کے ساتھ مصروف رہنا ضروری ہے ۔ کہیں پر بھی کسی قسم کی بھول چوک برداشت نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک ضلعی کمشنر کی کوشش ہے کہ اس کے علاقے میں انتخابات کا عمل بہتر طریقے سے انجام پائے ۔ تاہم ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لوگوں کے آئے دن کے مسائل نظر انداز نہ ہوجائیں ۔ الیکشن کا رکھ رکھائو اپنی جگہ ۔ اس کے باوجود عام لوگوں کے مسائل پر توجہ دینا ضروری ہے ۔ لوگوں کو شکایت ہے کہ الیکشن اور کوڈ آف کنڈکٹ کی آڑ میں ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ بلکہ بہت سے ملازم اس نوعیت کے بہانے بناکر اور کوڈ آف کنڈکٹ کا حوالہ دے کر اپنے پاس آنے والے سائلوں کو بغیر کام کئے گھر بھیجتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہاہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں پہلے ہی کام بہتر طریقے سے نہیں کیا جاتا تھا ۔ اب بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹروں اور دوسرے نیم طبی عملے کی حاضری بھی بہت کم ہوتی ہے ۔ اگرچہ یہاں آن لائن حاضری لی جاتی ہے ۔ تاہم اس معاملے میں مبینہ طور گھوٹالے کئے جاتے ہیں ۔ جس وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ بعض پرائیویٹ ہسپتالوں میں الیکشن کا بہانہ بناکر مریضوں کا ایوشمان کارڈ پر علاج کرنے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ ہسپتالوں کے علاوہ راشن فراہم کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے ۔ صارفین کو راشن حاصل کرنے کے لئے راشن گھاٹوں کے کئی کئی چکر کاٹنا پڑتے ہیں ۔ پینے کے پانی کے حوالے سے مختلف علاقوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان مشکلات کو لے کر کئی علاقوں میں لوگوں نے احتجاج بھی کیا ۔ جل شکتی اور دوسرے کئی محکموں کے ملازم الیکشن عمل کو چھٹیوں کا موسم سمجھ کر اکثر اپنی ڈیوٹی نظر انداز کرتے ہیں ۔ ایسی صورتحال عام لوگوں کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے ۔
جموں کشمیر میں الیکشن کا عمل ملک کے باقی علاقوں کی نسبت حد سے زیادہ حساس بنادیا گیا ہے ۔ حالانکہ اب پہلی جیسی پوزیشن نہیں ہے جب الیکشن کے دوران مار دھاڑ کا خطرہ رہتا تھا ۔ اگرچہ سیکورٹی حلقے اب بھی بڑی چستی سے ڈیوٹی دینے پر تلے ہوئے ہیں اور کسی بھی موقعے پر گڑ بڑ کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ اس وجہ سے یہاں انتخابی عمل بہت ہی نازک صورتحال اختیار کرچکی ہے ۔ سرکاری ملازموں کی بڑی تعداد انتخابی عمل کے ساتھ جڑی رہتی ہے ۔ اس دوران لوگ اپنے بہت کم مسائل لے کر سرکاری دفتروں میں جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کو حد سے زیادہ مجبوری کا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہی سرکاری دفتروں کا رخ کرتے ہیں ۔ لیکن ان دفاتر سے انہیں اکثر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ یہ مایوسی کی بات ہے کہ سرکاری دفاتر الیکشن کے دوران روزمرہ کے مسائل نپٹانے کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ حالانکہ کل لیفٹنٹ گورنر نے ایک میٹنگ کی صدارت کی جس میں آنے والے دنوں کے دوران مذہبی تہواروں کے حوالے سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ ایل جی کی سطح پر ایسے عمومی مسائل پر بھی توجہ دی جارہی ہے ۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ لوگوں کے روزمرہ کے مسائل ساتھ ساتھ حل کئے جائیں اور لوگوں کو ان معاملات کو لے کر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ لیکن نچلی سطح پر ایسا نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں ملازم الیکشن کے دوران کوئی کام کرنا ممنوع قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ دو تین دن کی الیکشن ڈیوٹی کافی ہے ۔ لوگوں کے مسائل پر توجہ مبذول رکھنا بہت ضروری ہے ۔ خاص طور سے ضروری خدمات کو پس پشت ڈالنا بہت بڑی غلطی ہے ۔ بعض ایسے معاملات ضروری ہیں جن پر ضابطہ اخلاق کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ایسے کام الیکشن کے دوران نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کاموں کی پہلے ہی نشاندہی کی گئی ہے ۔ لیکن روزمرہ کاموں کے حوالے سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ مریضوں کا علاج ، راشن کی فراہمی ، پینے کے پانی کی سپلائی اور اس نوعیت کے کاموں میں تساہل کسی جرم سے کم نہیں ہے ۔ انتظامیہ ایسے مسائل پر توجہ دے کر لوگوں کے ایسے مسائل نپٹانے پر زور دے ۔ الیکشن لوگوں کو بہتر انتظامیہ اور زیادہ بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں ۔ ان انتخابات کے انعقاد کے دوران لوگوں کے روزمرہ کے مسائل نظر انداز نہیں ہونے چاہئے ۔